ایک گمنام اُستاد کے نام


دورانِ تعلیم میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ میں بھی کبھی استاد بنوں گا۔ یہ تصور نہ کرسکنے کی وجہ تدریس کو معمولی شعبہ قرار دینا نہیں بلکہ معاملہ ’ کہاں میں کہاں یہ مقام ‘ والا تھا۔ میں نے کبھی  اپنے آپ کو استاد ہونے کے اہل ہی نہیں سمجھا تھا۔ ماسٹرز کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا تو بڑے بھائی نے ایک فوجی تعلیمی ادارے میں انگریزی کے معلم کے طور پر درخواست جمع کرانے بھیج دیا۔

جس روز درخواست لے کر پہنچا تو پتہ چلا کہ اسی روز اساتذہ کے ٹیسٹ ہورہے تھے۔ درخواست وصول کرنے والے نے فوراً مجھے شارٹ لسٹ کیا اور کمرۂ امتحان کی راہ دکھائی جہاں مختلف مضامین کے لئے ٹیسٹ دینے والی تیس خواتین اور کچھ حضرات موجود تھے۔ ٹیسٹ شروع ہوچکا تھا۔

مجھے سوالات کا پرچہ دیا گیا اور میں پورے انہماک سے پرچہ حل کرنا چاہتا تھا لیکن میرے قریب بیٹھے ایک بزرگوار، جو اُردو کے امید وار تھے، دوران امتحان اپنا علم کاغذ پر منتقل کرنے کی بجائے نگران کو زبانی سنانے پر بضد ہوگئے۔ وہ نہایت شستہ اُردو لہجے میں گویا ہوئے :

’میاں یہ جو فلسفہ خودی پر سوال ہے۔ صرف اقبال تک محدود رہنا ہے یا پھر ہم دو چار قدم آگے بھی جا سکتے ہیں؟ ‘۔

نگران نے انہیں اقبال تک محدود رہنے کا مشورہ تو یہ بات انہیں ناگوار گذری۔ خود کلامی کے انداز میں اٹھتے ہوئے بولے، ’ٹھیک کہتے ہو میاں۔ جب سوال اپنے نہیں تو جواب کیسے اپنے ہوسکتے ہیں ؟ ‘

 یہ کہتے ہوئے پرچہ دیے بغیر تھکے تھکے قدموں سے ہال سے نکل گئے۔

انہیں جاتا دیکھ کر میں کافی دیر تک لکھنا بھول گیا۔ وہ کون تھے، کن حالات کا شکار ہوکر یہاں چلے آئے تھے، میں کچھ نہیں جانتا۔ لیکن ان کے آخری جملے میں چھپی تعلیمی حکمت میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں دیر تک انہیں جاتے ہوئے دیکھتا اور سوچتا رہا کہ شاید ہمارے اداروں کو نئی بات کہنے والوں کی ضرورت نہیں۔ بلا کا وقار، گہرائی اور اعتماد تھا اُن آواز میں۔ ان کے اوجھل ہونے کے بعد میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ میرے پاس وقت کم تھا لہٰذا جو من میں آیا لکھ دیا۔

 میرا پرچہ کسی فیاض ممتحن کے ہاتھ لگا اور اُس نے دل کھول کر نمبر دیے۔ نتیجہ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ ان کا شجرہ نسب سید ہونے کی صورت میں  حاتم طائی اور مقامی ہونے کی صورت میں سخی رنگیلا  سے ملتا ہے۔

اگلے روز انٹرویو تھا جو اعلیٰ فوجی افسران نے لینا تھا۔ ان دنوں میں فوج کو بس فوج ہی سمجھتا تھا۔ میں نے کبھی غور نہیں کیا تھا کہ وردی کی شکل اور اس پر لگے پھول بُوٹوں سے کونسا افسر مُراد ہوتی اور اس سے بات چیت کرنے کے آداب کیا ہیں۔ لہٰذا میں نے لاعلمی میں اپنی لاعلمی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ضرورت سے زیادہ پُر اعتماد رہا، دوران انٹرویو ایک آدھ ایسی بات بھی کردی جس پر پورا پینل ہنسنے پر مجبور ہوگیا اور یوں اعلیٰ فوجی افسر نے بیک جنبش لب مجھے طالب علم سے استاد کا درجہ دے دیا۔

’مجھے آپ کا اعتماد اور حس مزاح بھی پسند آیا۔ آج سے آپ ہمارے ساتھ ہیں ‘۔

اگلے روز سکول پہنچنے پر پتہ چلا کہ اعلیٰ افسر کے کہنے پر مجھے وہ کلاس دی گئی ہے جس کا جس کسی نے بھی بیڑا اٹھایا وہ ایک آدھ ماہ سے زیادہ نہ چل سکا۔ انتظامیہ کا خیال تھا کہ میں اگر ان کی موجودگی میں ہنس سکتا ہوں تو پھر کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ پرنسپل صاحب نے بتایا کہ ان کے سامنے بڑے بڑوں کی ٹانگیں کانپتی ہیں اور آپ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے رہے۔

’حیرت ہے کمانڈر صاحب کو جو حرکت بدتمیزی لگتی ہے وہ حرکت آپ نے کی تو انہیں پسند آگئی‘۔

یہ سب سننے کے پانچ منٹ بعد میں اُس کلاس میں موجود تھا جہاں پچیس کے قریب نوجوان دھینگا مشتی سے فارغ ہوکر کچھ دیر کے لئےاپنی کچھاروں میں سستا رہے تھے۔ کچھ کی حالت اُن زخمی شیروں جیسی تھی  جو دشمن پر بڑی چھلانگ لگانے کے لئے کچھ دیر بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ باران دیدہ گرگ اکھاڑ پچھاڑ کے بعد ٹائیاں سیدھی کرنے، قمیض کے ٹوٹے ہوئے بٹن گننے اور زیر لب گالیاں دینے میں مصروف تھے۔ مجھے کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر سب اپنے دشمنوں کو بھول کر میری طرف متوجہ ہوئے تو میں کچھ سہم سا گیا۔ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کے لئے آستینیں چڑھائیں تو لڑکے یہ سمجھے کہ میں ان سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار ہورہا ہوں۔ میں نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی تو وہ اپنی ٹائیاں درست کرنے لگے۔ میں ڈائس پر پہنچا اور خالص فرنگی لہجے میں ان سے مخاطب ہوا۔

’مجھے آپ کو پڑھانے کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن شاید آپ کھیلنا چاہتے ہیں ؟ کون سا کھیل کھیلیں ؟‘

’انتاکشری ‘۔ ایک لڑکے نے طرح دی تو کمر ہ انتاکشری کے انت اکشر سے گونج اٹھا۔

’تو سامنے آؤ کس میں ہے دم ‘۔

وہی لڑکا کھڑا ہو ا تو میں نے کہا

’تم دس بہترین لڑکے چن لو۔ اگر جیت گئے تو میرے سکول سے نکلنے تک ہرروز تمہاری پسند کا کھیل ہوگا۔ اگر ہار گئے تو ہرروز کھیل کا فیصلہ میں کروں گا۔ منظور ؟ ‘

وہ میرا اعتماد دیکھ کر گھبرا سا گیا اور اس نے اپنے دس ساتھی چن لئے۔ باقی لڑکے سننے والے تھے۔ پہلا گیت اُس لڑکے نے شروع کیا تو ساری کلاس اُس کے ساتھ مل کر گانے لگی۔ شور اٹھا تو پرنسپل صاحب دروازے پر آگئے۔ لڑکے خاموش ہوئے تو میں نے دروازے پر جاکر پرنسپل صاحب سے کہا کہ آپ چند دن یہ شور برداشت کریں۔ پہلے شور بند ہوگا اور پھر یہ سی سیکشن اے سیکشن سے زیادہ پرفارم کرکے دکھائے گا۔ ایسا نہ ہوا تو میں نہ صرف استعفی پیش کروں گا بلکہ بورڈ پر لکھ کر جاؤں گا کہ میں نااہل بھی ہوں۔

پرنسپل چلے گئے، انتاکشری ہوئی اور طلبا کی ٹیم کو بدترین شکست۔ میں نے تین چانس دیے لیکن تینوں بار طلبا کی ٹیم ہار گئی۔ پھر پورا پیریڈ موسیقی، بینڈز اور گانوں پر بات چیت میں گذر گیا۔ اگلے روز وہ ٹیم انٹرنیٹ سے کئی ان سُنے گیتوں کی فہرست بناکر لائی لیکن جب بھی وہ گانا دھن میں نہ گاپاتے میں انہیں گا کر سناتا اور پوری کلاس تالیاں بجاتی۔ غیر جانبدار طلبا نے اپنے کلاس فیلوز کا مذاق اڑانے کی کوشش کی تو میں نے منع کر دیا۔

میں اُس روز چھٹی کے وقت نئے دوستوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھا کہ اُس لڑکے کی نظر مجھ پر پڑی۔ وہ لمحے بھر کے لئے رُکا اور پھر میرے پاس آگیا۔ ’سر آپ مجھے بدتمیز سمجھتے ہوں گے ‘۔

 ’ نہیں۔ میں آپ کو زندہ دل سمجھتا ہوں لیکن کیا کریں کہ یہاں اکثر زندہ دلوں کو یہی کچھ سمجھا جاتا ہے ‘۔

اگلے روز پہنچا تو کلاس کا نقشہ کچھ بدلا ہوا تھا۔ وہ کچھ سنجیدہ تھا تو سب سنجیدہ لگ رہے تھے۔ اس وقت مجھے پتہ چلا کہ پوری کلاس اُسی کی پیروکار ہے۔ مطلب صا ف تھا۔ لڑکا بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کا مالک تھا لیکن اپنی صلاحیتوں کا رُخ متعین نہیں کر پایا تھا۔ جب وہ پڑھنے کے لئے تیار تھا تو سب تیار تھے اور یوں اُس روز خوب پڑھائی ہوئی۔

اُس روز پیریڈ ختم ہونے پر وہ میرے ساتھ سٹاف روم تک گیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ اور اس کے دوست نالائق نہیں بلکہ وہ کچھ اور سوالات پر غور کرتے ہیں۔

موسمِ گرما کی تعطیلات ہونے کو تھیں تو میں نے کلاس سے کہا کہ چھٹیوں میں سب کوئی اچھا ناوَّل ضرور پڑھ کر آئیں۔ وہ جاسٹن گارڈر کا مغربی فلسفے کی تاریخ پر لکھا گیا ناوَّل ’سوفیز ورلڈ ‘ (Sophie’s World) لایا تو مجھے اُس کے ذہن میں گردش کرنے والے سوالات کی کچھ خبر ہوئی۔ میں اس سے کہا کہ اس نے نہ صرف وہ ناول خود پڑھنا ہے بلکہ ٹیلی فون پر اپنے گروپ کے ساتھ سٹڈی سرکل میں اس پر بات چیت بھی کرنی ہے۔ یہ سن کر اُس کی آنکھوں میں چمک سی آگئی۔

 تعطیلات ختم ہوئیں تو جو اساتذہ اُ س کلاس کو بوجہ بدتمیزی پسند نہیں کرتے تھے وہ طلبا کے سوالات سے تنگ آ گئے۔ مثال کے طور پہ فزکس کے استاد نے ایک روز مجھے بتایا کہ کلاس یہ سوال کر رہی تھی :

 ’کیا کسی چیز کا نام رکھ دینا اُس شے کو جاننے کے مترادف ہے؟‘۔

یہ سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میں نے اُس طالب علم کو کلاس کا مانیٹر بنادیا۔ کچھ دنوں بعد یہ مشہور ہوگیا کہ اس کلاس میں کوئی استاد بنا تیاری کے نہیں پڑھا سکتا۔ سالانہ نتائج کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ سی سیکشن نے سیکشن اے کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

 مجھے خُوشی تھی کہ اُس کی زیرِ قیادت سٹڈی سرکل نے اپنا کام کردکھایا ہے۔ اب چند طلبا کی نظر ڈھائی ہزار برسوں میں اٹھائے جانے والے تمام بنیادی علمی سوالات پر تھی اور وہ اُن کے جوابات خود تلاش کررہے تھے۔ یہ سب میرے گمنام استاد اس جملے کا نتیجہ تھا کہ جب تک سوالات آپ کے اپنے ذہن سے نہ اٹھیں آپ سنجیدگی سے ان کے جوابات بھی تلاش نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments