پاکستان اور بھارت میں سفارتی محاذ آرائی اور اہل کشمیر کا انسانی المیہ


وزیراعظم عمران خان جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں۔ اس خطاب کو ان سفارتی کوششوں کا نقطہ عروج قرار دیا جاسکتا ہے جو عمران خان نے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران جاری رکھی ہیں۔ پاکستان کی خواہش رہی ہے کہ دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر مبذول کروائی جائے اور اہم ممالک  بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کا نوٹس لیں۔

ابھی تک ان کوششوں کی کامیابی کا کوئی واضح اشارہ تو نہیں ملا لیکن اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ بیان کو اس بارے میں دنیا کے نقطہ نظر کا عکاس سمجھ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کو کشمیر کی زیادہ پرواہ نہیں ہے اور اسے عام طور سے بھارت کا داخلی معاملہ ہی سمجھا جارہا ہے۔ البتہ پاکستان اور بھارت پر زور دیا جارہا ہے کہ انہیں باہمی تنازعات نمٹانے کے لئے ایک دوسرے سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان کئی حوالوں سے اہم ہوسکتا ہے۔ ایک تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران دونوں ملکوں سے بات چیت کرنے اور باہمی مسئلہ سے نکلنے کے لئے دوستانہ انداز میں اپیل کی ہے۔ عمران خان اور نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ’دوستو مسئلہ کا حل نکالو‘ ایک ایسا اظہار تکلم ہے جسے ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر معمولی طریقہ سفارت و سیاست کے علاوہ اس بات کا اشارہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے درپردہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی سطح پر کھلے عام یا خفیہ بات چیت کا اہتمام کیا ہو یا کم از کم اس بارے میں دونوں ملکوں کے لیڈروں پر دباؤ ڈالا ہو۔

 صدر ٹرمپ گزشتہ دنوں کے دوران پہلے عمران خان اور پھرنریندر مودی سے ملاقات کرچکے ہیں۔ دونوں مواقع پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے ثالثی کے علاوہ بات چیت کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اب جنرل اسمبلی میں عمران خان اور مودی کے خطاب سے پہلے ان سے بھرپور دوستانہ انداز میں مسئلہ حل کرنے کی اپیل بے مقصد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی دونوں ملک کسی سنجیدہ امریکی کوشش کو مسترد کرسکتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ امریکہ کیوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تصاد م سے پریشان ہوگا؟

اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اشتعال انگیزی میں اضافہ یا تصادم کی کوئی صورت حال مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اس کے مفادات کے لئے مناسب نہیں ہوگی۔ بلکہ کئی حوالوں سے یہ تصادم صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ پروجیکٹ کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ، ایران کو گھٹنوں پر لانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ یہ واضح کرچکے ہیں کہ ایران یا تو ان کی شرائط پر بات چیت پر آمادہ ہوجائے اور انہیں یہ موقع دے کہ وہ اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران اپنے لوگوں اور امریکہ کے مغربی حلیفوں کو یہ پیغام دے سکیں کہ انہوں نے 2015 کے ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرکے دراصل درست اقدام کیا تھا ۔ اور اس ہتھکنڈے کی وجہ سے انہوں نے ایران کو بہتر شرائط پر معاہدہ کرنے اور امریکہ کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کردیا۔

ایران نے ابھی تک ان امریکی کوششوں کا مثبت جواب نہیں دیاہے حالانکہ امریکی پابندیوں اور اقتصادی بائیکاٹ کی وجہ سے ایرانی تیل کی برآمدات بند ہوچکی ہیں اور اس کی معیشت تباہی کے کنارے پہنچی ہوئی ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ صدر حسن روحانی کی حکومت زیادہ دیر تک یہ دباؤ برداشت نہیں کرسکے گی اور اسے جلد یابدیر امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہونا پڑے گا۔ دوسری طرف ایران صرف اس شرط پر مذاکرات چاہتا ہے کہ امریکہ جوہری معاہدہ سے نکلنے کے بعد عائد کی گئی پابندیوں کو ختم یا نرم کرے۔ امریکہ اس قسم کی رعایت دینے پر تیار نہیں ہے۔

ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال کشیدہ ہوئی ہے۔ آبنائے ہرمز سے تیل کی ترسیل کو اندیشے لاحق ہوچکے ہیں اور سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد یہ واضح ہؤا ہے کہ ایران کے ساتھ براہ راست تصادم سے پوری دنیا کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ تمام تر دعوؤں کے باوجود ان اثرات سے نہ تو محفوظ رہ سکے گا اور نہ ہی ان میں ملوث ہونے سے گریز کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری براہ راست ایران پر عائد کرنے کے باوجود کسی بھی قسم کی عسکری کارروائی سے گریز کیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کی سیاست اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آگے بڑھانا چاہتے ہیں جس کے تحت اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات میں قربت لاکر فلسطین کا یک طرفہ حل نافذ کیا جائے گا اور ایران کے فوجی اثر و رسوخ کو محدود کرنا مطلوب ہے۔ ٹرمپ اگر دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو اس منصوبے پر عمل درآمد کے لئے زیادہ تیزی دیکھنے میں آسکتی ہے۔ ایسے میں پاک بھارت جنگ مشرق وسطیٰ کی سیاست پر امریکہ کی گرفت کمزور کرنے کاسبب بن سکتی ہے۔ افغانستان کا معاملہ مزید پیچیدہ اور ناقابل حل ہو جائے گا اور سعودی عرب کے مقابلے میں ایران کی اہمیت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بھارت اگر جنگ کی طرف بڑھتا ہے تو اس کی معیشت اور اس سے جڑے امریکی مفادات کا متاثر ہونا بھی فطری ہوگا۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو اقدمات کئے ہیں اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے علاوہ وہاں مکمل لاک ڈاؤن کی جو پالیسی اختیار کی ہے، اس کی وجہ سے بھارت بھی ضرور جنگ کے خوف میں مبتلا ہوگا۔ عمران خان کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے تصادم اور جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کے بارے میں جو غیر روائیتی اور سخت مؤقف اختیار کیا گیا ہے، اس نے بھی نئی دہلی کے علاوہ واشنگٹن میں ضرور ہلچل برپا کی ہوگی۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ نریندرمودی نے پاکستان کے ساتھ معاملات طے کروانے کے لئے صدر ٹرمپ سے کسی قسم کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہو۔

جولائی میں عمران خان کے دورہ وہائٹ ہاؤس کے موقع پر صدر ٹرمپ برملا اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ نریندر مودی نے ان سے کشمیر کے معاملہ پر ثالثی کی درخواست کی تھی۔ بھارت نے اگرچہ اس کی تردید کی تھی لیکن مودی نے اس معاملہ پر آج تک زبان نہیں کھولی۔ تو کیا یہ قیاس کیا جائے کہ بھارتی وزیر اعظم کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کے ساتھ مواصلت یا مصالحت کے لئے صدر ٹرمپ کی خدمات استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ اور کیا جنرل اسمبلی کا اجلاس وہ موقع فراہم کرتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر بھارت ، پاکستان کے ساتھ کوئی معاملہ طے کرسکتا ہے؟

عمران خان نے دورہ نیویارک کے دوران ایک خاص سفارتی ایجنڈے کے تحت بیانات دیے ہیں۔ کشمیر کی بات کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تصادم کے خطرے کو نمایاں کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اچھی طرح علم ہوگا کہ بھارتی حکومت آئین کی شق 370 کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس نہیں لے گی ۔ اسی طرح بھارت کو بھی یہ خوب اندازہ ہے وہ غیر معینہ مدت تک مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیو مسلط نہیں رکھ سکتا۔ دونوں ملک کشمیر میں بنیادی سہولتیں بحال ہونے کے بعد پیش آنے والے حالات کا اندازہ قائم کرتے ہوئے اپنی سفارتی پوزیشن تیار کررہے ہیں۔

عمران خان اور نریندر مودی اپنے اپنے طور پر اسی متوقع صورت حال کی وجہ سے ایک دوسرے کو دباؤ میں لاکر کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا خیال ہے کہ کرفیو اور لاک ڈاؤن کے بعد کشمیری عوام شدید احتجاج کریں گے جس میں ہونے والی ہلاکتیں بھارت کی پوزیشن کمزور کریں گی ۔جبکہ مودی حکومت کشمیری عوام کے ساتھ فوری طور پر ایسے کسی تصادم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔ تاہم اس مقصد کے لئے اسے پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ یہ تعاون حاصل کرنے کے لئے بظاہر دباؤ اور درپردہ مفاہمت یا افہام و تفہیم کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کا بیان ان کوششوں کا عنوان بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم اگر صدر ٹرمپ کو کسی درمیانی راستے پر رضامندی کا اشارہ دے چکے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی کل جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کوئی ایسی پیشکش کریں جسے عمران خان اپنی تقریر میں قبول کرنے پر راضی ہوجائیں۔ یا کچھ عرصہ بعد ایسی کوئی صورت حال سامنے آجائے۔ یہی ٹرمپ کی ثالثی کا کرشمہ ہوسکتا ہے ۔ لیکن ایسے کسی نتیجہ کے لئے کشمیر کاز کاکیا بنے گا اور سیاسی طور پر پاکستانیوں کے جذبات سے کیسے نمٹا جائے گا؟

اسلام آباد میں وزارت خارجہ نے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے سفیروں کو پیشکش کی ہے کہ وہ بالاکوٹ جاکر خود اس بات کی تصدیق کرلیں کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کے لئے دہشت گرد تیار نہیں کررہا۔ اس طرح بھارتی آرمی چیف کے الزام کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری طرف عمران خان خود ہی کشمیر یوں کا سفیر بننے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اب اگر یہ ’سفیر‘ بھارت کے ساتھ مصالحت کا کوئی راستہ نکال لیتا ہے تو کشمیر پر سودے بازی کے الزام کا بوجھ بھی اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ ڈرائنگ بورڈ پر پالیسیاں طے کرنے والے بدستور سرخرو رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali