نئی دنیا کے فلمی کاشت کار


جنگل اور باغ میں کیا فرق ہے؟ جنگل فطری ہوتا ہے، باغ بنایا ہوا۔ پھر اگر بات تفریحی باغوں یعنی عرف عام میں پارکس کی نہ ہو بلکہ زراعتی باغات کی ہو تو باغ کا مقصد معاشی یا تجارتی ہوتا ہے۔ جنگل کا ویسا کوئی افادی مقصد نہیں۔ فطرت کے اپنے مقاصد ہیں جن کا انسان کے افادی مقاصد سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے انسان کی بنائی ہر شے باغ یا کھیت کی طرح افادی ہو یہ لازم نہیں۔ انسان بہت سے کام محض جمالیات کے لئے بھی کرتا ہے۔ اس کی ایک حسین مثال تاج محل ہے مگر تاج محل بنانے والے کب جانتے تھے کہ بعد میں ایسا بھی دور آئے گا کہ اس محبت کی یادگار پر بھی بھاری ٹکٹ لگا کر بھارتی حکومت بھاری ریونیو کمائے گی۔

انسانی جمالیات کے ہی مظاہر فنون لطیفہ بھی ہیں۔ حقیقی اور عظیم شاعری ہو یا حقیقی اور عظیم ادب یا مصوری یا موسیقی، اس کے مقاصد خالص افادی ہو ہی نہیں سکتے۔ حقیقی ادب و فن کبھی افادی نہیں ہو سکتے، ادیب یا شاعر یا مصور کا کوئی مقصد یا ایجنڈا ہو، یہ بات ادب کو یا فن کو کم تر نہیں بناتی مگر یہ مقصد اس کے دل کا مسئلہ ہونا چاہیے، نہ کہ کسی پروڈکٹ یا خیال کی مارکیٹنگ یا انقلابی بمباری۔

مگر بدقسمتی سے ادب و فن کے بہت سے مظاہر اب کسی نہ کسی ایجنڈے کے تحت ہیں یا کمرشل ہیں۔ ادبی جریدے ختم ہورہے ہیں، ہاں ڈائجسٹ جاری ہیں اور سب سے بڑھ کر جو شاعری، جو موسیقی اور جو کہانی عوام الناس کو متاثرکر رہی ہے، وہ اکثر فلموں سے آ رہی ہے۔ لوگ کی بھاری تعداد اب ادب عالیہ نہیں پڑھتی۔ ہاں دوسرے اور تیسرے درجے کے لکھاریوں کی تحریر کردہ فلمیں بڑے شوق سے دیکھتی ہے۔ اب انسان کی جمالیاتی ضروریات تو کبھی ختم ہوتی نہیں، ہو سکتی نہیں۔ لوگ تو ٹرک جیسی مشین پر پھول پتیاں بنا کر اس میں بھی ایک نوع کا آرٹ تراش لیتے ہیں۔ لوگوں کی جمالیاتی ضروریات اب فلموں سے پوری ہوتی ہیں۔

اور یہ فلمیں تو ایک مکمل طور پر تجارتی معاملہ ہیں۔ ان میں جو کہانیاں ظاہر ہوتی ہیں وہ اکثرعامیانہ ہوتی ہیں۔ فلم بنانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ مشکل خیال عوام کی سمجھ میں کب آئے گا۔ پھر فلموں میں بھی بعض فلم ساز سعی کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنا ایجنڈا، اپنا افادی نظریہ لوگوں کے دماغوں میں ٹھونس دیں، یہ کام خالص تجارتی فلموں میں نہیں ہوتا تھا، اس لئے کہ تاجر کو اس سے کیا کہ لوگوں کی سوچ، ان کے خیالات، نظریات بدلے جائیں؟ یہ بخار تو اولاً سوشلسٹوں کو لاحق ہوا تھا جب انہوں نے بہت سی آرٹ فلمیں تخلیق کی تھیں اور اب یہ شوق خیر سے لبرلوں کو ہو گیا ہے۔

مگر اب یہ ہدایت کاروں کے انفرادی بخار کے بجائے ایک نوع کا پیڈ (Paid) ایجنڈا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اگر یہ پیڈ نہ بھی ہو تب بھی یہ بالادست روشن خیال طبقات کا ایجنڈا ضرور ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں تو فلم انڈسٹری کے نام پر مذاق ہی ہے، اس لئے ہم بات بھارت کی کر رہے ہیں اور اس میں شک کی صریحاً کوئی گنجائش ہے بھی نہیں کہ بھارتی فلمیں ہمارے سماج پر بے پناہ اثر بھی رکھتی ہیں۔ گزشتہ تقریباً 16 یا 17 سالوں میں مندرجہ ذیل ایجنڈاز کی کاشت کاری بھارتی فلمیں بڑے زوروں سے اپنے ناظرین کے اذہان میں کر رہی ہیں۔

٭ ہندو مسلم شادی یا دو مختلف مذاہب کے افراد کی شادی بڑی مستحسن شے ہے۔

٭ ہم جنس پرستی بڑی نارمل شے ہے بلکہ مستحسن شے ہے۔

٭ شادی سے قبل Live۔ in کرنا بڑی مستحسن، بڑی شاندار شے ہے۔

٭ بچے دو ہی اچھے۔

٭ بس اپنی مرضی پر چلو، اپنی مرضی کی پڑھائی کرو، اپنی مرضی کی شادی کرو۔

الغرض بس بالکل امریکا و یورپ ہی بن جاؤ۔ ان تمام ہی ایجنڈاز کی کاشت کاری ایک ساتھ شروع نہیں ہوئی۔ 90 کی دہائی میں مخلوط ہندو مسلم، ہندو عیسائی وغیرہ شادیوں کو موضوع بنا کر فلمیں بنیں۔ پھر 2000 ء کی پہلی دہائی میں اپنی مرضی کا راگ دیگر معاملات میں بڑے زوروں سے شروع ہوا۔ رفتہ رفتہ ہم جنس پرستی پر بھی بات شروع ہوئی اور پھر یہ مستقل موضوع بنا۔

بچے دو ہی اچھے والی تھیم تو خیر 80 کی دہائی سے ہی آنے لگی تھی۔ بعد میں یہ کوئی شعوری تھیم نہیں رہی بلکہ فلموں میں بس دو یا تین بچوں ں والے ہی گھرانے دکھائے جاتے ہیں، چاہے وہ بالکل دیہاتی ماحول کی فلمیں ہی کیوں نہ ہوں۔ لیو اِن (Live۔ in) تعلق کا دور کافی نیا ہے۔ کنوارے پن کے روایتی تصور کا اب مذاق اڑایا جاتا ہے۔ فلموں میں اب لڑکیاں بڑے زور و شور سے کہتی نظر آتی ہیں کہ اب تو ہم بستری (Sex) پہلے ہوتی ہے اور نام بعد میں پوچھا جاتا ہے۔

یہ وہ دنیا ہے جو معلوم نہیں ہندوستان میں کتنی حقیقت بنی ہے مگر یہ بات صاف ہے کہ اسی کو حقیقت بنا دینے کی جدوجہد بڑے زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ یہ خیالات کی کاشت کاری ہے، یہ ادب یا فن کیا ہو گا، یہ تو صحیح معنوں میں تجارت بھی نہیں۔ مگر یہ مسلسل بمباری کمزور اذہان میں خیالات کے بیج بو تو رہی ہے۔ ان بیجوں سے ایک فصل تو تیار ہو گی، یا شاید تیار ہو بھی گئی ہے۔ جو دنیا ان خیالات سے خلق ہو گی وہ ہمارے لئے کتنی اجنبی اور کتنی بھیانک ہو گی، یہ جاننے میں شاید ہمیں اب زیادہ وقت تو نہ لگے اور بھارت تو ہم سے پہلے ہی اس زہریلے بیج کی فصل کاٹے گا اور کاٹ رہا ہے۔ مگر یہ شعور بھی کیا بھارت کو ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).