چمن کو اپنا لہو پلایا نمود برگ و ثمر سے پہلے


وزیر اعظم پاکستان عمران خان آج ( 27 ستمبر) کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا خطاب کریں گے۔ اس سے قبل عمران خان صدر ٹرمپ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ شیڈول کے مطابق اہم فورم سے خطاب اور اہم شخصیات سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ حکومت وزیر اعظم کی تقریر کو تاریخ ساز قرار دے رہی ہے۔ ( 1995 میں بے نظیر بھٹو اور 2016 میں نواز شریف کی برہان وانی شہید والی تقریر بھی تاریخی تھی جس نے اقوام متحدہ سمت بھارت کے پسینے چھڑا دیے تھے ا) عمران خان نے بھی دورہ امریکا جانے سے قبل قوم سے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں۔

اقوام متحدہ میں ہر سال ماہ ستمبر کے مہینے جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی اہمیت یہی ہے کہ سالانہ تقریب میں عالمی برداری اکٹھا ہوتی ہے۔ تقاریر کا ”مقابلہ“ ہوتا ہے اور جس ملک کی سفارت کاری زیادہ موثر ہوتی ہے، اس کے سربراہان اہم ممالک کے سربراہان مملکت سے سائیڈ لائن ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔ اس سے ان ملکوں کے درمیان خارجی تعلقات میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ امور خارجہ کے حوالے سے جس ملک کی لابنگ بہتر ہوتی ہے وہ اتنی ہی اہمیت حاصل کرتا ہے۔

گر اسے سادہ لفظوں میں کہا جائے کہ جو ملک اقتصادی طور پر اہمیت کا حامل ہوگا اس پر سرمایہ داری نظام کے تحت اہم ممالک تجارتی مفادات کے لئے توجہ دیں گے۔ گو کہ جنرل اسمبلی کا کام سرانجام دینے کے لئے چھ کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ لیکن اجمالی جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا کردار انتہائی محدود اور و غیر فعال نظر آتا ہے۔

جنرل اسمبلی کے فرائض میں تحفظاتی و سیاسی معاملات، تخفیف اسلحہ، تولیتی معاملات، سماجی انسانی اور ثقافتی معاملات کی ذمے داری ہے۔ لیکن موجودہ عالمی سیاسی منظر نامے میں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ دنیا میں کہیں بھی چھوٹے بڑے بحرانوں کو حل کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی۔ مشرق وسطی سمیت جنوبی ایشیا میں فوری حل طلب معاملات میں اقوام متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن ہے۔ بالخصوص مسلم اکثریتی ممالک میں خانہ جنگیوں کے خاتمے کے لئے اقوام متحدہ کے کردار کا نام و نشان تک نہیں ہے۔

وزیر اعظم عمران خان سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر جنرل اسمبلی میں خطاب کریں گے۔ لیکن اسی اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کی قرار داد منظور کی تھی، جس پر 70 برس گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ اپنی ہی قرارداد پر عمل کرانے میں ناکام رہا۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اپنے ادارے کی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے کے بجائے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیتے ہیں کہ دونوں ممالک ”ثالثی“ کی پیش کش کو قبول کریں۔

پاکستان سب کچھ جانتے ہوئے بھی کسی بھی ملک کی ثالثی کی پیش کش پر ہامی بھر لیتا ہے لیکن بھارت ہٹ دھرمی کی روش پر گامزن ہے۔ بلکہ بھارت پہلے جموں و کشمیر کو دو ممالک کے درمیان تنازع قرار دیتا تھا۔ اب مودی سرکار نے تو یہ بھی کہنا چھوڑ دیا ہے بلکہ عالمی برادری کو یہ کہہ کر حقائق مسخ کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھارت کا ”داخلی“ معاملہ ہے۔ پاکستان سے آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستا ن پر بات کی جا سکتی ہے۔

پاکستان بھی پہلے استصواب رائے پر زور دیا کرتا تھا۔ لیکن اچانک موقف آرٹیکل 370 پر تھم گیا۔ جو اب پرانا ہو کر کرفیو کے خاتمے پر اٹک چکا ہے۔ ہم کیوں اس موقف کو فراموش کرنا چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر تو بھارت کا حصہ ہی نہیں، بلکہ قابض ہے ’تو کسی بھی آرٹیکل کی قانونی حیثیت نہ تو پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ ہمارا پہلا و آخری موقف یہی ہونا چاہیے کہ اصل بات تو کشمیریوں کا حق خوداداریت ہے۔ استصواب رائے ہے۔ کشمیر کی آزادی ہے۔ یہ ہم کس راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اب تو شملہ معاہدہ، قرار داد لاہور بھی ردی کی ٹوکری میں ہے۔ تو کس بات کا انتظار ہے؟

کشمیری عوام تو 70 برسوں سے بھارتی جارحیت کا شکار ہیں، آٹھ لاکھ فوجی کوئی آج سے نہیں بلکہ ابتدا سے مسلط کیے گئے ہیں۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ بھارت نواز کشمیری رہنماؤں نے آرٹیکل 370 پر احتجاج ضرور کیا ہے لیکن آزادی کے لئے مقبوضہ کشمیر سے ایسی کوئی تحریک نہیں چلائی جا رہی جو مودی سرکار کو ہلاسکتی ہو۔ 80 لاکھ کشمیری گھر بیٹھے، کسی کا بھی انتظار کیوں کررہے ہیں۔ ضرورت تو اس اَمر کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام گھروں میں خود کو مقید نہ رکھیں، کرفیو کی پابندیوں کوغلامی کی زنجیروں کی طرح توڑ ڈالیں۔

مجھے کوئی غلط فہمی نہیں کہ جنرل اسمبلی میں خطاب کے بعد بھارت مقبوضہ کشمیر کو استصواب رائے کا حق دینے پر راضی ہوجائے گا۔ بلکہ مزید 700 برس بھی اس بات کا انتظار کیا جاتا رہے کہ بھارت شرافت سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق حق خودارادیت دے گا تو یہ خام خیالی ہوگی۔ میں کم ازکم احمقوں کی جنت میں نہیں رہنا چاہتا کہ بھارت نواز کشمیری رہنما ہوں یا پاکستان حلیف کشمیری تنظیمیں پتھر پھینک پھینک کر آزادی حاصل کرلیں گے۔

ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ (تقاریر، جلسے، جلوس، مظاہرے اور دھرنے اپنی جگہ) مقبوضہ کشمیر کی آزادی صرف باتوں سے ممکن نہیں ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک ہوں یا پھرغیر مسلم ممالک، بھارت کو ایک بڑی تجارتی منڈی سمجھتے ہیں، ان کے تجارتی مفادات اس سے وابستہ ہیں اس لئے سب کچھ اپنے ہی نشریاتی اداروں سے دیکھنے کے باوجود عملی اقدامات کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔

بھارتی آرمی چیف نے ایک بار پھر بڑھکیں ماریں ہیں۔ پاکستان نے پھر تحمل و رواداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن یہ باتوں کے نہیں لاتوں کے بھوت ہیں۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم جلسوں میں آنسو بہا رہے ہیں، ہمیں بھی اپنے کشمیری بھائیوں، بہنوں پر ہونے والے مظالم کا دکھ اور غم ہے، لیکن راقم سمجھتاہے کہ رونے دھونے کے بجائے جذبہ ایمانی سے کام لینا چاہیے۔ آزاد کشمیر کی عوام اور نوجوان نسل کو اپنی مادر وطن کی آزادی کے لئے تیار کرنے کی ضرورت کو اجاگر کریں۔

یاد رکھیں، اگر آزادی چاہتے ہیں توانہیں اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی۔ انہیں ویت نام اور افغانستان جیسی جنگوں کی تاریخیں پڑھائیں کہ سپرپاور کہلانے والی قوتوں کا اپنی مادر وطن کی حفاظت کرنے والوں نے کیا حال کیا تھا۔ ویت نام اور افغانستان میں نہتی عوام نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ سپر پاورز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ بھی اٹھیں، اللہ تعالی غائبانہ مدد کرتا ہے اور اسے مدد کرتا ہے کہ وہم گمان میں بھی ہوتا۔

یقین جانیں ثالثی کی بار بار پیش کش کرنے والا امریکا اپنے مسئلے خودحل نہیں کرسکتا، وہ مقبوضہ کشمیر کے حقوق کہاں سے دلائے گا۔ بھارت سے علیحدگی پسند تنظیمیں، مذہبی دہشت گردی، آر ایس ایس کی انتہا پسندی سنبھالے نہیں جا رہی، اپنی عوام کو کیڑے مکوڑے کے طرح مرنے کے لئے فٹ پاتھوں پر چھوڑنے والے سے اپنی معیشت و سیاسی حالات نہیں سنبھالے جا رہے وہ کشمیریوں نوجوانوں کے طوفان کے سامنے ٹھہر بھی سکے گا۔ ان شا اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).