عمران خان کا خطبہ جمعہ


”نبؐی ہمارے دل میں رہتے ہیں اور دل کا درد جسم کی درد سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔

آج 27 ستمبر بروز جمعہ میں نے ایک خطبہ سنا۔ نہ تو یہ جمعہ کی نماز تھی اور نہ ہی کوئی اسلامی تہوار۔ نہ رائیونڈ کا اجتماع تھا اور نہ ہی یوم عاشورہ۔ نہ مسجد تھی اور نہ ہی کسی مسجد کا منبر۔ نہ خطبہ سنانے والا کوئی باریش مولانا تھا اور نہ ہی اس کے سننے والے سارے مسلمان۔ نہ خطبے کی زبان عربی تھی اور نہ اس کا انداز وجدانہ۔ نہ اس کا موضوع کوئی فتویٰ تھا اور نہ اس کا مقصد کوئی ثواب فقیرانہ۔ پھر بھی میں نے آج اپنی زندگی کا ایک شاندار خطبہ سنا۔ ایسا خطبہ جس کا موضوع پوری امت ’امت کا وقار‘ امت کے رہبر اور فخر کائنات (صلعم) کی ناموس کا تحفظ اور اس امت پر دہشتگردی کے الزام کا دفاع تھا۔

عجیب خطبہ تھا جس کا خطیب آکسفورڈ کا پڑھا ہوا ایک ملک کا وزیر اعظم تھا۔ یہ خطیب نہ زیادہ بلند آواز میں بول رہا تھا اور نہ آنسو بہا رہا تھا پھر بھی اس کے الفاظ سوا ارب مسلمانوں کے جذبات کے عکاس تھے۔ وہ مسلمان جن میں سے بہت سے ان پڑھ بھی ہوں گے ؛ جاہل بھی ہوں گے ؛ بے زبان بھی ہوں گے توتلے بھی ہوں گے ؛ بہت مذہبی بھی ہوں گے، مجھ جیسے بھی ہوں گے۔ لیکن ہر دفعہ اپنے اپنے انداز میں تڑپتے بھی ہوں گے اور سراپا احتجاج بھی ہوتے ہوں گے جب جب ان کے مذہب کو دہشتگردی کی علامت قرار دیا جاتا ہوگا اور ان کے نبی جن پر ان کی آل اولاد قربان ہو ؛ ان کی شان میں ”آزادی رائے“ کے نام پر گستاخی کی جاتی ہوگی۔

آج نیویارک میں ”اسلامو فوبیا“ کے خلاف ترکی کے طیب اردگان کے ساتھ مل کر یہ خطیب ان سب کا ترجمان بنا ہوا نظر آیا۔ مفت میں۔ بنا کہے۔ ایسے ہی۔ عاجزانہ۔ رضاکارانہ۔ ایسا خطبہ جس میں نہ صرف عشق رسوؐل تھا بلکہ تدبر اور لاجک سے بھرپور تاریخ عالم کے دلائل اور حوالے بھی تھے کہ مذہب دہشتگردی نہیں سکھاتا بلکہ اس کا شکار ہوتا ہے۔ جنونی انتہاپسند صرف مسلمان نہیں ہوتا بلکہ یہودیت، عیسایت اور ہندومت میں بھی ایسے جنونی پائے جاتے ہیں۔

خود کش حملے بس نائن الیون والا مسلمان نہیں کرتا بلکہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے بھی امریکا کے جہازوں پرایسے فدائی حملے کیے۔ ہندو تامل ٹائیگرز نے بھی سری لنکا میں یہ حملے کیے لیکن ان معاملوں میں بس انسانوں کا نام آیا ان کے مذہب کا نہیں۔ نیوزی لینڈ میں جس نے پچاس مسلمان مارے کیا میں اس کو مذہب سے جوڑ دوں؟

عجیب خطیب تھا۔ جو اپنے آپ کو الزام دیتا رہا کہ ہم مسلم لیڈروں سے غلطی ہوئی کہ ہم نے مغرب کو مسلمانوں کے نبی صلعم کے بارے میں احساسات سے ٹھیک سے آگاہ نہیں کیا۔ اس بات سے آشنا نہیں کیا کہ نبی ہمارے دل میں رہتے ہیں اور دل کا درد جسم کی درد سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس خطبے میں ”ہولو کاسٹ“ کا بھی ذکر تھا۔ وہ ہولوکاسٹ جس پر امریکا میں بات بھی نہیں کی جاتی کہ یہودیوں کا دل نہ دکھے اور ان کے زخم ہرے نہ ہوجائیں۔ لیکن عجیب مبلغ تھا۔ اس کا بھی ذکر کر بیٹھا کہ دل مسلمان کے سینے میں بھی ہوتا ہے جو بری طرح مجروح ہوتا ہے جب اس کے دل سے بھی قریب محبوب نبی حضرت محمد صلعم کی شان میں غلط الفاظ یا تصاویر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے ہولوکاسٹ پر مغرب بات کرنے سے پرہیز کرتا ہے ایسے ہی اسے شان محمدی صلعم کے بارے میں بھی آزادی رائے کے نام پر حد سے تجاوز کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔

آج عمران خان صاحب نے ایسے ہی خیالات کا ذکر کیا۔

ماحولیات کا ذکر کیا انسانیت کا ذکر کیا۔ دنیا کو جگایا کہ موحولیاتی تبدیلی انسانیت کو ختم کر دے گی۔ اس کے لئے ہمارے پاس منصوبے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث ہم اسے امپلیمنٹ نہی کر سکتے۔

کشمیر پر سب سے لمبی بات بائیس منٹ تک کی جس سے دنیا کو بہت بڑے خطرے سے آگاہ کیا۔

یقین جانیے! میں نے اب تک بہت سے خطبے سنے ہیں۔ عربی میں۔ اردو میں۔ جمعے میں۔ عیدوں میں۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کا انوکھا خطبہ تھا جس میں میں نے ایک ”یہودی ایجنٹ“ کو ایک نصرانی ملک میں بیٹھ کر ناموس رسالؐت اور حرمت اسلام کا پرچار کرتے دیکھا۔

اور یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب ایک عالم دین ایک مسلم ملک پاکستان میں بیٹھا سیاسی دھرنے کے لئے ”ناموس رسالتؐ“ کی پرچی بیچ رہا تھا۔ اس کے بعد مجھے فرق سمجھ آگیا۔ ”پرچی“ میں اور ”پرچار“ میں۔

رانا آصف محبوب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا آصف محبوب

Rana Asif Mahboob is a Freelance content writer,blogger and social Media Activist.To find out More about him please Check His Twitter Account :@RAsifViews

rana-asif-mahboob has 8 posts and counting.See all posts by rana-asif-mahboob