“بوزنے”


جہالت کی تین اقسام ہوتی ہیں۔
1: اپ جاہل ہیں اس کا آپ کو ادراک ہے۔
2: آپ جاہل ہیں مگر اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں۔
3: آپ جاہل ہیں اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور دنیا سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں بالکل اس پر مضر ہیں کہ وہ بھی آپ کو عقل کل درجہ دے۔

اور ہم بخیثیت قوم اس درجہ پر فائز ہیں۔

خان صاحب نے اقوام متحدہ میں بہترین تقریر کی مان لیا، الفاظ، جوشیلہ انداز کمال تھا، مان لیا، خوبصورت انگلش تھی، مان لیا، پوری قوم پر سحر طاری کر دیا، مان لیا۔ ہماری جذباتی قوم، الفاظ سے متاثر ہو جانی والی قوم، انگلش کی احساس کمتری میں مبتلا قوم، اچھی انگلش سن کر جان وار دینی والی قوم کے جذبات سے کھیلنے والا خطاب تھا اور اس فن میں خان صاحب سے زیادہ ماہر کون ہو سکتا ہے؟ ۔ مترجم خطاب جس طرح سے چینل نے بارہا دفعہ ٹیلی کاسٹ کیا، اتنے تواتر سے عظمت کے گن گائے کہ ایک لمحہ کو محسوس ہوا کہ جیسے کشمیر آزاد ہو گیا یا انڈیا نے 370 A کو بحال کر دیا۔ ایسا لگا جیسے خان صاحب نہیں بلکہ کوئی اوتار اس قوم کو مل گیا ہو (وہ تو شکر ہے نبوت کا سلسلہ بند ہو گیا) ۔ چلیں یہ بھی مان لیا مگر اس جذباتی بیانیہ سے جب قوم نکل ائے تو ایک نظر اس طرف بھی دیکھیں۔

اس دورہ اقوام متحدہ میں تقاریر سے آگے ہمیں خارجہ پالسی میں شدید قسم کی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کمیشن ، اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو انسانی حقوق کے لیے کام کرتا ہے اور مظالم روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ 12 ستمبر کو شاہ محمود قریشی صاحب نے قوم کو نوید سنائی کہ 50 ممالک پاکستان کے ساتھ ہیں اور اس ہی یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کمیشن کے فارم پر انڈیا کے خلاف کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف پاکستان قرارداد پیش کرنے جا رہا ہے اور 13 ستمبر کو خان صاحب نے 50 سے بڑھ کر 58 ممالک ہونے کا عندیہ دیا اور ان ممالک کا شکریہ ادا کیا۔

19 سمتبر دوپہر ایک بجے تک یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کمیشن میں قرارداد پیش کرنے کا وقت تھا مگر قرار داد منظور کروانا تو دور کی بات ہے ہم یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کمیشن میں قرارداد تک پیش نہیں کر سکے ہم دنیا کہ 16 ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی سے متاثر نہ کر سکے کہ کم از کم قرارداد ہی پیش کر پاتے۔ یہ ممالک کی کیسی حمایت تھی کہ جو قرارداد پیش کرنے تک ساتھ نہ دے سکی؟ اور دکھ کی بات کہ ہیمشہ کی طرح قوم کو جھوٹ سنایا گیا۔

اس تقریر کے بعد سیاسی جمہوروں نے آپ کو امت مسلمہ کا لیڈر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر خان صاحب اس امت مسلمہ کے لیڈر نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ کیسا امت مسلمہ کا لیڈر ہے جب یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائٹس کمیشن میں یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف قرارداد پیش ہوئی اور اس قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک میں پاکستان بھی تھا۔ یہ اعلامیہ کسی مفاد پرست لیڈر کا تو ہو سکتا ہے جو جہاز میں سیر کے قرض اتار رہا ہو مگر کسی امت ملسمہ کے لیڈر کا نہیں۔ جس وقت آپ دنیا کو بھاشن دے رہے کہ دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس کو اپنی معیشت عزیز ہے یا انسان؟ تب مجھے لگا کہ شاید چین میں بسنے والے مسلمان وہ لا اِلہ ال اللّٰہ نہیں پڑھتے جو ہم پڑھتے ہیں۔ یا برما سے JF 17 کا معاہدہ کرتے ہوئے میانمار کے مسلمان بھول گے یا وہ مسلمان ہی نہیں؟

انڈیا کی پاکستان سے متعلق تمام تر خارجہ پالیسی کا مرکز دو نکات ہیں۔ ایک کہ پاکستان دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کا مرکز ہے اور خان صاحب وہاں بیٹھ کر یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ پاکستانی آرمی و آئی ایس آئی ہی طالبان اورالقاعدہ کے خالق ہیں۔ اور دوسرا نکتہ یہ کہ (خاکم بدہن) پاکستان ایک غیر ذمہ دار ریاست ہے جس کی وجہ سے یہ نیوکلیئر پاور کی اہل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں موجود وزراء سے لے کر خان صاحب کی تقریر میں نیوکلیئر بم کا جابجا استعمال کو وارننگ نہیں، دنیا نے دھمکی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ایسا لگتا تھا خان صاحب در پردہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کو مضبوط کر رہے ہیں۔ راقم کی شدید خواہش ہے کہ راقم کی یہ سوچ یکسر غلط ہو اس کے نتائج فیٹف یا کسی بھی حوالے سے میری پاک سر زمین کو متاثر نہ کریں۔

تقاریر کے ساتھ کاش ہماری صادق و امین ٹیم کچھ عملی اقدام بھی کر لیتی جس سے دنیا اور خاص کر کشمیریوں کو تاثر جاتا کہ ہم واقعی ہی کشمیر کے ساتھ ہیں۔ کاش کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں پیش کرنے سے پہلے خکومت ثابت کرتی کہ جب تک کشمیر بند رہے گاپاکستان میں انڈیا کا سفارتخانہ بند رہے گا، جب تک کشمیری کھلی فضا میں سانس نہیں لے سکتے تب تک پاکستانی فضا بھی انڈیا کے لیے بند رہے گی۔ کاش کرفیو کے 26 ویں روز کرتارپور بارڈر کھولنے کے حوالے سے پاکستان انڈیا کی میٹنگ میں مٹھائیاں نہ کھلائی جا رہی ہوتی۔

کاش نیوکلیئر جنگ تک لڑنے کے لیے تیار خان صاحب انڈیا سے مکمل معاشی بائیکاٹ کا اعلان کرتے اے کاش! ۔ مگر راقم جوش جذبات میں یکسر یہ بات نظر انداز کر جاتا کہ یہ وہ ہی خان صاحب ہیں جس نے ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، معیشت کی اوج کمال و بلا بلا کے خواب دیکھائے۔ جو حال اس وقت ہے وہ سب عوام کے سامنے ہے۔ یہ وہ ہی خان صاخب ہیں جن کے قول و فعل میں اربوں نوری سال کا فاصلہ ہے۔

جب تقاریر کے ساحر سے یہ قوم نکلے گی تو اس کو اندازہ ہو گا کہ جس وقت اس ملک کے کرتا دھرتا سینیٹ کے الیکشن جتوانے کے لیے چالیں چل رہے تھے، اس وقت انڈیا ناک کے نیچے سے کشمیر غائب کر چکا تھا۔ جب جذباتی قوم ”ہن مار کے دیکھا“ والی جادوئی ٹویٹ و تقاریر سے آزاد ہو گی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ جس طرح بنگلہ دیش کا ملبہ بھٹو نے اٹھایا، کارگل کا نواز شریف نے، اس ہی طرح کشمیر کا ملبہ اٹھانے کے لیے عمران خان صاحب مکمل تیار ہو چکے ہوینگے۔

اللہ کشمیریوں پر زندگی آسان کرے۔

نازش علی صدیقی
Latest posts by نازش علی صدیقی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).