شکریہ عمران خان!


مستنصر حسین تارڑ صاحب ڈھائی ماہ کے بعد ملک واپس آ ئے ہیں۔ رات کو ان کے ہاں مدعو تھا۔ عمران خان کا خطاب شروع ہوا تو ابتدائی چند منٹ کے بعد مجھے دفتر سے تارڑ صاحب کی طرف نکلنا پڑا۔ اگلی صبح نشرر مکرر میں ساری تقریر سنی۔ عمران خان کہاں، ایک درد تھا جو لفظوں کے سیلاب میں ڈھلا اور اقوام عالم کو بہا لے گیا۔ کیا دکھ تھا جس کو عیاں نہ کیا۔ مسلم ریاستوں میں عربی و عجمی کا امتیاز بہت نمایاں ہے، اتنا نمایاں کہ عربوں نے عرب لیگ بنا کر اپنے مفادات کی الگ تشریح کر رکھی ہے۔ 57 مسلم ریاستیں ہیں شاید 25 سے زیادہ کا ہمیں نام بھی معلوم نہ ہو۔

کلمہ گو وہ بھی ہیں۔ رسول کریمؐ کے امتی ہونے کا شرف ان کے پاس بھی ہے لیکن وہ نہ تو عرب ہیں اور نہ دولت مند۔ ان کی کسی کو شاید ابھی ضرورت نہیں۔ عمران خان جب اسلامو فوبیا پر بات کر رہے تھے تو تالیاں بجانے والے بیشتر مندوب ایسی ہی مسلم ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے۔ پیغام بہت سادہ اور عام فہم ہے۔ سوا ارب انسانوں کی منڈی عزیز ہے یا انسانیت کا احترام؟ یہ اقوام متحدہ، یہ بین الاقوامی نظام، عالمی قوانین اور دنیا میں امن و آشتی کی لچھے دار باتوں کو صرف سفارتی تکلف تک محدود رکھنا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ ورلڈ آرڈر اس لئے بنا کہ مغربی ریاستوں کی سرحدیں کشیدگی سے پاک رہیں اور انہیں تعمیر و ترقی کی مہلت مل سکے۔

نیوورلڈ آرڈر کا مطلب دنیا کو مسلم اور غیر مسلم خانوں میں تقسیم کرکے غیر مسلم قوتوں کو توانا کرنا ہے۔ بھارت غیر مسلم ریاست ہے۔ دنیا کے منصفوں کے سامنے ہم دہائی دیتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے جلتے گھروں، اجڑے باغات، بھرے قید خانوں، نوجوانوں کی لاشوں اور خواتین کی عصمت دری کا نوٹس لیں۔ انہیں دلچسپی ہے کہ بھارت میں ان کی مصنوعات اربوں ڈالر کا منافع لا رہی ہیں۔ فیصلے منافع کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ قوت ایمانی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا، قوت بازو کو بڑھانے کے لئے پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کو منافع کی شکل میں اپنا ایک منصف بھی عالمی مارکیٹ میں بٹھانا ہو گا۔

عمران خان کی تقریر پر 80 لاکھ بھارتیوں نے سوشل میڈیا پر رائے دی ہے۔ بھارتی میڈیا رو پیٹ رہا ہے۔ عمران خان نے مجاہدین کی بھرتی، تربیت اور مالیاتی وسائل کے ضمن میں جو انکشافات کئے وہ امریکہ کے علم میں ہیں۔ اسی کے کہنے پر یہ سب ہوا۔ اعتراف کا مقصد بھارت کی بلیک میلنگ ختم کرنا ہے۔ افغان جہاد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سٹریٹجک منصوبوں کو بھارت دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ نادان دوست عمران خان سے پوچھ رہے ہیں کہ مجاہدین کو تربیت دینے کا بیان داغنے کی کیا ضرورت تھی، عمران خان نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ ایسے منصوبوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ سپر پاور امریکہ اور مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے تشکیل دیئے گئے تھے۔

مفاہمت کی ضرورت صرف داخلی سیاسی قوتوں کے درمیان نہیں ہوتی بین الاقوامی نظام میں کچھ نئی پوزیشن لے کر بھی طاقت حاصل کی جاتی ہے۔ کیا بلاول بھٹو زرداری کے سوا پاکستان میں کسی نے عمران خان کی تقریر کو مایوس کن قرار دیا؟ نواز شریف کی حامی قوتیں آزاد کشمیر میں کئی طرح کے نظریاتی مسائل پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ چندلوگ کشمیر کے بیٹے ہونے کی بجائے نواز شریف کے وفادار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پاکستانی پرچم کی جگہ غیر محسوس طریقے سے کشمیر کے جھنڈے کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کو ایک دوبار غلط مشورہ دیا گیا جسے وہ ٹال گئے اور آخر کھل کر کہنا پڑا کہ کوئی پاکستانی لائن آف کنٹرول پار نہ کرے۔

ریاست جو پالیسی اختیار کرتی ہے عملی تدابیر اس سے ہم آہنگ ہونی ضروری ہیں۔ ایسا نہ ہو تو دنیا اعتبار نہیں کرتی۔ امریکہ اور بھارت ساری دنیا میںہمیں ناقابل اعتبار کہہ رہے ہیں۔ ہم کچھ عرصہ اس حکمت عملی پر گامزن رہے تو فیصلے ہمارے حق میں آنے لگیں گے۔ نواز شریف کا برسراقتدار رہنا بھارت کی ضرورت تھا۔ تیزی سے ابھرتا بھارت ہمارے لئے خطرہ ہے۔ ریئلزم کی دنیا میں یہی درست ہے کہ پاکستان سے افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی تجارتی منڈیاں چھیننے والے بھارت کو کشیدگی اور جنگ کا احساس دلایا جائے۔ ایک سال پہلے بھارت کی جی ڈی پی 8 فیصد تھی جو اب چار سے نیچے آ گئی ہے۔

زوال کا سفر جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سارے رہنما اور سارے ملک معاشی مفادات کے غلام نہیں ہوتے۔ کوئی چھوٹی سی منڈی کا درجہ رکھنے والا ملک بھارت کی حقیقت جان کر اس کے ساتھ لین دین روک لیتا ہے تو یہ بھی پاکستان کی کامیابی ہے۔ عمران خان نے نیویارک میں چند روز میں جس قدر ملاقاتیں کیں ان کا اثر کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔ پاکستان کی عمومی شناخت بدلنے کی اس سے عمدہ اور بھرپور کوشش پچھلے بہتر سال میں نہیں دیکھی گئی۔شکریہ عمران خان عمران خان نے بھٹو کی تقریر کے پہلو میں نصف صدی کے بعد ایک اور پرشکوہ تقریرکھڑی کر دی ہے۔ عالمی اجتماع تھا۔ دکھوں، محرومیوں اور ناانصافیوں کو آشکار نہ کرتے، دولت لوٹتے، سرگولڈ سمتھ کی سٹیٹ کے ساتھ کوئی عظیم الشان محل خرید لیتے۔

بنی گالا کی چار دیواری سرکاری خرچ پر بن سکتی تھی۔ پہلے بھی تو احتساب کے نام پر سودے بازی ہوتی آئی ہے، اب بھی ہو جاتی۔ این آر او آ جاتا۔ حکمران اشرافیہ اپنے ہی بھائی بندوں کو تحفظ عطا کر دیتی۔ جیل کے اندر بیٹھ کر سیاسی غیرت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ باہر والے اپنے بندوں کو چھڑانے کے لئے کڑی شرائط ماننے کو تیار ہیں۔ بھارت نے ان سیاسی و مذہبی رہنمائوں کی پاکستان میں خدمات حاصل کر لی ہیں جو ملک میں انتشار پیدا کرتے ہیں، جنہیں کرتار پور منصوبے کا افتتاح سبوتاژ کرنا ہے اور جنہوں نے اقوام متحدہ میں عمران خان کی پذیرائی کو منفی رخ پر دکھانا ہے۔

کیا اپوزیشن کے لئے یہ شرمندگی کی بات نہیں کہ وہ کشمیر کے معاملے پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی اور آج عمران خان تن تنہا ایک مضبوط اور حقیقت پر مبنی موقف پیش کرکے دنیا سے داد پا رہا ہے۔ اندرون ملک مہنگائی، بدانتظامی، پولیس اصلاحات اور بدعنوانی کے چیلنجز ہیں لیکن کیا یہ امر باعث اطمینان نہیں کہ ہم پاکستانی قوم سے متعلق دنیا کی رائے بدل رہے ہیں۔ اس عمل سے لاتعلق رہنے والی سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنمائوں کو اپنے مستقبل پر نظر رکھنی چاہئے جو وائرس زدہ ٹاہلیوں کی طرح سوکھ رہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).