طیب اردوان اور عمران خان کی تقریر میں فرق: جو ہونا چاہیے تھا


وزیراعظم عمران خان نے کشمیر میں جاری مظالم، پاک بھارت تعلقات میں تناو، اسلامو فوبیا اور مسلم دہشت گردی پر اقوام متحدہ میں ایک بھرپور خطاب کیا ہے۔ سامنے دو مائک اور آگے بڑا مجمع، اچھا خطاب کرنا کچھ ایسا خلاف توقع بھی نہیں تھا۔ مزاجاً خطیب واقع ہوئے ہیں، اور کچھ ہو نہ ہو خطاب وہ اچھا کرتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر انہوں نے بھارت اور خصوصا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم، بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور پاکستان میں بھارتی مداخلت کا موضوع سامنے لاکر انہوں نے بھارت کو عالمی دنیا میں خوب لتاڑا۔ یہ سب اپنی جگہ خوب مگر کیا کشمیر کے مسئلے کو اس سب کا فائدہ کیا ہوگا؟ اس خطاب سے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ حکومتی رویے میں کیا بہتری آئے گی؟ کیا بھارت کشمیر کو اس کی آزاد حیثیت واپس دینے پر رضامند ہو جائے گا؟

ہاں یا نہیں سے پہلے ترک صدر طیب اردوان کے کچھ تقریروں کا جائزہ لیں۔ طیب اردوان عالمی فورمز پر فلسطین اور برما سمیت مسلم ممالک کے مسائل کے لیے ہمیشہ سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ مسلم امہ کے مسائل پر ان کا اقوام متحدہ یا دیگر عالمی فورمز پر آواز اٹھانا ایک مستحسن اقدام سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی یہ تقریریں ان مسائل کو عالمی فورمز تک پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔ فلسطین کے مظلوموں کی آواز اقوام متحدہ تک پہنچ جاتی ہے۔

بے بس فلسطینیوں کے لیے یہ بھی بسا غنیمت ہے کہ کوئی تو ہے جو ان کی آواز دنیا تک پہنچا رہا ہے۔ مگر کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ طیب اردوان کی تقریر سے اقوام متحدہ کا کوئی کمیشن بنا ہو جس نے فلسطین کا دورہ کیا ہو، وہاں ہونے والے مظالم کا جائزہ لینے کے بعد اسرائیل کو انتباہ کیا ہو۔ اس انتباہ کے نتیجے میں اسرائیلی مظالم یا اس کی جانب سے غاصبانہ قبضوں میں کمی آئی ہو۔ یا اس نے فلسطینیوں کی کوئی مقبوضہ زمین انہیں واپس کردی ہو۔ فلسطینی قیدیوں کو ہی رہا کیا ہو۔ ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آیا۔ میرا مقصد ہر گز یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ طیب اردوان کی تقریریں بے فائدہ ہیں یا انہیں یہ سب کچھ کرنا نہیں چاہیے۔ فلسطین میں سسکتی انسانیت کے لیے عالمی فورمز پر گونجتی یہ ایک آواز ہی ہے۔ اسے خاموش کرنا ہر گز ہماری خواہش نہیں ہے۔ محض اتنا عرض کرنا ہے کہ یہ تقریریں ہیں اور تقریر کا کام صرف متعلقہ فورم تک آوازپہنچانا ہوتا ہے۔ عملی نتائج کی توقع صرف تقریر سے نہیں کی جاتی اس کے لیے سفارتی اور تزویراتی جد وجہد کرنی پڑتی ہے۔

طیب اردوان ہی کی مثال لیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کے مسائل پر گفتگو سے پہلے کبھی اس کے لیے فیلڈ ورک اور دور ونزدیک نتائج کے منصوبے مرتب نہیں کیے۔ انہوں نے کبھی اپنی خارجہ پالیسی میں فلسطینی مفادات کو ترجیحی بنیادوں پر نہیں رکھا۔ اپنی تجارتی پالیسیوں میں کبھی اسرائیلی مفادات کی پامالی کو مد نظر نہیں رکھا۔ اپنے عالمی تعلقات اورعالمی تزویراتی شکست وریخت میں کبھی فلسطین کواولین ترجیحی بنیاد نہیں دی۔

یہ سب کچھ کرنے کے لیے جتنی پاور چاہیے وہ اردوان کے پاس فی الوقت ہے بھی نہیں۔ اردوان داخلی طورپراس وقت بڑے بڑے مسائل سے نبردآزما ہیں۔ معیشت کی مضبوطی، فوج بغاوت کے زیر زمین پنپتے ریشے، مضبوط اپوزیشن اور کردوں کی جانب سے کردستان تحریک جیسی چیلنجز انہیں درپیش ہیں۔ عالمی سیاسی صورتحال میں وہ ایک متحرک اور فعال حکمران ہیں جو خطے سمیت پوری دنیا کے مسائل میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش میں ہے۔ مگر جیسا کہ عرض کیا فلسطین کے حوالے سے وہ عملا کچھ کرڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے ان کی تقریر فلسطین، کشمیر، برما اور مصر کے مظلوموں کے لیے ہمدردی کے بول تو ہوسکتے ہیں، مسیحا ہر گز نہیں ہیں۔

عمران خان صاحب نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کا مقدمہ جس انداز میں پیش کیا ہے وہ قابل صد تعریف ہے۔ اگرچہ ایٹمی جنگ کی دھمکی اور ”آیا جے غوری“ ٹائپ کی گفتگو کو کچھ لوگ اوور ری ایکٹ قرار دیتے ہیں۔ مگر بہرحال کشمیراور نریندر مودی کی جارحانہ پالیسیوں کے حوالے سے وہ اپنا مقدمہ پیش کرچکے ہیں۔ ہمارے کچھ دوست طیب اردوان اور خان صاحب کی تقریر کا تقابل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حالیہ تقریر کے بعد خان صاحب بھی ایک جری اور قد آور لیڈر کے طورپر سامنے آئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ خان صاحب کی تقریر کا طیب اردوان کی تقریروں کے ساتھ تقابل کیا جائے تو شاید فرق کرنا مشکل ہی ہوجائے۔ جتنی شدت سے خان صاحب نے بھارت پر تنقید کی ہے طیب اردوان بھی اتنی ہی شدت سے تنقید کرتے ہیں۔ عملی نتائج کی توقع جس طرح ان کی تقریر سے نہیں کی جاتی خان صاحب کی تقریر بھی ایسی بے ثمر ثابت ہورہی ہے۔ خان صاحب اور طیب اردوان کی تقریر میں یہی ایک فرق، جو ہونا چاہیے تھا مگر نہیں ہے۔ بات دراصل عمران خان اور طیب اردوان کی پوزیشن کی ہے۔

طیب اردوان اگر فلسطین، مصر، برما اور کشمیر پر بات کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے محض عالمی مسائل ہیں۔ جو ان کی ثانوی ترجیحات ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح اپنے اندرونی حالات پر کنٹرول اور ترقی ہے۔ اس کے بعد ہی وہ ثانوی معاملات پر عملی کام کریں گے یا کرسکیں گے۔ جبکہ خان صاحب کے لیے اس وقت مسئلہ کشمیر محض ایک دور دراز کا عالمی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ آپ کے اپنے ملک میں ہونے والی تبدیلی ہے۔ وہی کشمیر جسے آپ اپنی شہہ رگ کہتے ہیں۔

یہ آپ کی شہ رگ کا مسئلہ ہے۔ اس پر طیب اردوان والی تقریر جھاڑ کر خوش ہوجانا شاید دانشمندی کا تقاضا نہ ہو۔ اتنی بات تو ہرسیاسی طالب علم جانتا ہے کہ یہ دور مفادات کا ہے۔ جب تک کسی کا مفاد آپ سے وابستہ نہیں ہوگا آپ کا ساتھ دینے کو وہ ہر گز تیار نہیں ہوگا۔ اپنے ملک کی سیاسی، معاشی اور سفارتی وتزویراتی پالیسیاں اس انداز سے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ دنیا کے اہم ممالک کے لیے آپ اہمیت کے حامل ہوں۔ عالمی سیاست میں آپ کی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ آپ کی چلتی ہر چال پر کھیل پلٹ جانے کا خطرہ ہو۔

عالمی طاقتیں آپ کے نقصان وفائدہ میں اپنا فائدہ ونقصان دیکھنے لگیں۔ آپ کی اسٹریٹجک اہمیت ہی آپ کو اہمیت دلاتی ہے۔ تب ہی عالمی فورمز آپ کی آواز جب اٹھتی ہے تو نتیجہ خیز بھی ہوتی ہے۔ آپ کشمیر کے لیے جب بات کرتے ہیں تو دنیا اسے قبول کرتی ہے۔ تب آپ کی دھمکی بھی کارگر ہوتی ہے اورپرامن مذاکرات کی پیش کش بھی موثر رہتی ہے۔ خان صاحب کی تقریر، تقریر کی حدتک قبول بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔ مگر خان صاحب کی پوزیشن اس وقت محض تقریر پر اکتفا کا تقاضا نہیں کرتی۔ یہ وقت صرف کشمیریوں سے اظہار ہمدردی کا نہیں بلکہ اپنی کٹتی شہرگ بچانے کا ہے۔ اس کے لیے فیلڈ ورک اور تزویراتی جد وجہد کی ضرورت ہے۔ دنیا کو اپنے ساتھ انوالو کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی دباؤ کی بدولت ہی بھارت کشمیر کی آزادانہ حیثیت دینے کو تیار ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).