پانچ من مینڈک کہاں جارہے تھے؟


20 ستمبر کی صبح شاہدرہ کے رہائشی اظہر اسحاق اور پرنس مسیح کو پولیس ناکے پر روکا گیا۔ دونوں کے پاس موجود تھیلوں کی تلاشی لی گئی تو پولیس اہلکار دنگ رہ گئے ان تھیلوں میں بڑی تعداد میں مینڈک موجود تھے۔ پولیس اہلکاروں نے ان سے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا یہ مینڈک راولپنڈی کے نجی کالج میں پریکٹیکلز کے لیے بھجوائے جارہے ہیں۔ ناکے پر موجود سینئر اہلکار کو دونوں بھائیوں کی یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ان سے شناختی کارڈ مانگاگیا مگربدقسمتی سے دونوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا۔

یہیں سے اہلکار کو لگا آج اس نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے۔ اس پر یقینی طور پر وہ حکومتی شاباش کا مستحق قرار پائے گا۔ اظہر نے بتایا کہ میں آبکاری روڈ پر جا رہا تھا، یہ مینڈک ہم نے کامونکی، دیہاتی علاقوں سے پکڑے تھے۔ مینڈک اکٹھا کرنے کے لیے ہمیں دیہاتی علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ جب ہمیں پولیس والون نے روکا۔

ہم نے پولیس کو لیٹر بھی دکھایا جو ہمیں کالج کے پرنسپل نے بھیجا تھا۔ میں نے پولیس والوں کو پرنسپل کا نمبر بھی دیا۔ لیکن انہوں نے کوئی بات نہیں سنی، اظہر نے کہا کہ مینڈک پانچ من بھی نہیں تھے۔ مشکل سے 110 عدد مینڈکوں کا وزن تیس سے چالیس کلو ہو گا۔ پولیس نے ہم سے موبائل بھی چھین لیے اور ہماری جیبوں میں موجود چھ سات سو روپیہ بھی لے لیا۔ سال میں دو یا ایک مرتبہ آرڈر آتا ہے اور ہمیں ایک مینڈک کے عوض تیس سے چالیس روپے ملتے ہیں۔

اس کا کہنا تھا کہ جس پولیس والے نے ہمیں پکڑا اُس نے کہا کہ میں یہ سب اس لیے کر رہا ہوں تاکہ میرا عہدہ بڑا ہو۔ اظہر کی والدہ نے کہا کہ میں ساری رات پولیس کے پاس کھڑی رہی۔ پولیس نے میرے بچوں کو مارا اور گالیاں دیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ لائیو اسٹاک کی ایک خاتون افسر نے پولیس کو کہا کہ ان کو مت ماریں۔ دو پولیس اہلکاروں نے میرے بچوں کو جانے نہیں دیا۔ ہم ساری رات وہیں کھڑے رہے۔

ان دونوں نوجوانوں کے پاس 110 عدد مینڈکوں کو 5 من کہا گیا اور ان کو بے بنیاد بدنام کروا دیا گیا۔ پولیس نے رات بھر دونوں بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، ان کی والدہ کو کئی گھنٹے کھڑا رکھا۔ پوری دنیا میں زندہ دلان کے شہر لاہور کو بری طرح سے بدنام کردیا گیا۔

یہ صرف ایک واقعہ ہمارے سسٹم کی ناکامیوں سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔ سب سے پہلے آپ پولیس کے تفتیشی سسٹم کا جائزہ لیں آپ کو محسوس ہوگا ہماری پولیس آ ج بھی کئی سال پیچھے ہے۔ یہ کسی کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے پر اسے ذلیل کرسکتی ہے۔ نہ صرف انہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کو اذیت میں مبتلا کرسکتی ہے۔ اگر پولیس اہلکار موقع پر ان بھائیوں کے پاس موجود کالج کا لیٹر دیکھ لیتے اور کالج انتظامیہ سے رابطہ کرلیتے یا مقامی تھانے میں اطلاع کرکے ان کے محلے سے چیک کرلیتے تو یہ بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔

اس سے آگے کا کام سوشل میڈیا نے کردکھایا جب ایک چینل کے سکرین شاٹس منظر عام پر آنا شروع ہوئے تو میمز اور سوشل میڈیا کی پوسٹیں بنانے والی کمپنیوں نے دھڑا دھڑ پوسٹیں بنائیں۔ جنہیں چند بغض کے مارے اور سادہ لوح لوگوں نے مذاق کے طور پر وائرل کردیا۔ صرف چند گھنٹوں میں ہر طرف یہ بات پھیل گئی کہ خدانخواستہ لاہور میں مینڈکوں کا گوشت ہوٹلوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ جب ہم اس شغل میلے سے فارغ ہوجائیں تو ہمیں ضرور جائزہ لینا ہوگا۔

چند منٹوں کے اس مذاق کے بعد کئی لوگوں نے ہوٹلوں سے کھانا کھانے سے توبہ کرلی ہے۔ ان افواہوں سے دوسرے شہروں سے آنے والے سیاحوں کا اعتماد ٹوٹا ہے۔ سب سے بڑا نقصان ان دو بھائیوں کا ہوا ہے جن کی تصاویر تو ہم نے وائرل کردیں مگر وہ آج تک یہ صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں وہ کسی ہوٹل کو نہیں صرف تعلیمی اداروں کو یہ مینڈک سپلائی کرتے ہیں۔ کل کو کوئی جانباز اٹھ کر انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).