میکاولی کا خط عمران خان کے نام


میرے روحانی عزیز عمران خان ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تم آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہو مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ تم میری کتاب “دی پرنس” سے واقف ہو یا نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اس زمانے میں کرکٹ نے تمہیں ڈھیر سارا مصروف رکھا ہو گا اور پھر نوجوانی میں بہت سے مشاغل کے ہاتھ سیدھے دل پر پڑتے ہیں۔ ایسی صورت میں پرانے بوڑھے بابے کی کتاب کون پڑھے۔ سو تعارفی طور پر بس یہ کہے دیتا ہوں کہ بہت سے لوگ میرے نام کو سیاست میں منافقت اور ریا کاری کا درس سمجھتے ہیں۔ میں ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ میرا مطلب حکمران اور رعایا کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر بھی میں نے اپنے تئیں سوچ رکھا ہے کہ میں حکمران کو وہ تاریخی اور سماجی شعور بہم پہنچاوں جو حکمرانی میں کام آ سکے۔ لوگ میرے بارے میں جو بھی سوچیں، میں حکمرانوں اور عام آدمیوں کی بھلائی چاہتا ہوں۔ عزیزی عمران، اللہ تمہاری حکومت کو بھی چار چاند لگائے۔

 میں پچھلے ساڑھے چار سو سال سے عالم بالا پہ بیٹھا دنیا کو دیکھتا رہتا ہوں۔ مجھے کڑہتے رہنا بالکل پسند نہیں۔ میں ذاتی طور پر پرامید لوگوں کو پسند کرتا ہوں اور ان کی صحبت مجھے بھلی لگتی ہے۔ فوجی جرنیل، سپہ سالار اور قوموں کے بلند بانگ لیڈر ہر لمحہ اپنے آپ کو امید افزا ثابت کرنے کی سعی میں رہتے ہیں اس لئے مجھے اچھے لگتے ہیں۔ میں دور بیٹھا ہوں مگر ان پر گہری نگاہ رکھتا ہوں۔

عزیری ۔۔۔ جب تک تم کرکٹر تھے، میرا تم سے معاملہ وہی تھا جو رومن اتھلیٹ اور تماشائی کا ہوا کرتا تھا۔ وہ اتھلیٹ جو کرتب بازی کے زور پر داد لینا یا اپنے آپ کو منوانا چاہتا تھا، شائقین اسے دوسرے درجے کا کھلاڑی گردانتے تھے۔ اس کے مقابلے میں ، بلکہ مجھے مقابلے کی بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں، میرا مطلب ہے کہ وہ اتھلیٹ جو کھیل کو عبادت سمجھ کر کھیلتے تھے اور اپنے خداوں کی طاقت کو اور اپنے فن کی لطافت کو تماشائیوں کی رگوں میں دوڑتے خون کی طرح ان کی روح میں حلول کر دیتے تھے، ان کھلاڑیوں کو خداوں کا پرتو سمجھا جاتا۔ یہ بات صرف یونانی کھلاڑیوں تک محدود نہیں۔ لیڈروں، سپہ سالاروں اور حکمرانوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ بہت زمانہ پہلے میں نے کسی جگہ لکھا تھا کہ آدمی سب سے بڑی غلطی کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب یہ نقطہ اس کی سمجھ سے باہر ہو کہ امکان کی حد کیا ہے اور خواہش اور امید کا دائرہ کہاں محدود کرنا ہے۔ جنہیں اس بات کا ادراک نہ ہو، میں ایسے سپہ سالاروں پر اور حکمرانوں پر تف بھیجتا ہوں۔ مجھے ان کا انجام پہلے سے معلوم ہے۔

عزیزی عمران ۔۔۔ جب سے تم وزیر اعظم بنے ہو، میں نے ذاتی طور پر تمہیں کرکٹر کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیا ہے بے شک کہ تمہارے ملک کے جوان اور اب ڈھلتی عمر کے خوش گمان لوگ ابھی تک پرانے ورلڈ کپ کے سحر سے آزاد نہیں ہو پائے۔ میں سب سمجھتا ہوں۔ جب کہر آلود مستقبل بلا کی صورت سامنے ہو تو ماضی کی پرچھائیاں کسی خوش رنگ اور خوش گلو ساحرہ کی طرح بن سنور کر حاضر وقت کے آنگن میں آن کھڑی ہوتی ہیں۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ میں نے تمہیں کرکٹ کے کھلاڑی کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب میں تمہیں مملکت خداداد کے وزیر اعظم کے طور پر دیکھتا ہوں اور تمہارے وہاں سے جب بھی کسی معصوم زینب، صلاح الدین یا ساہیوال والے مقتولوں کی آمد ہو، میری ان سے ملاقات ہوتی ہے اور پاکستان کی دیگر خبریں بھی ملتی رہتی ہیں۔

عمران عزیزم ۔۔۔ مجھے یقین تو نہیں کہ تم مزاجاً پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہو اور پھر تمہارے پاس اتنا وقت کہاں ہو گا کہ تم میری کتاب “دی پرنس” پڑھ سکو جسے ہر قوم اور ہرخطے کے علماء اور حکماء پچھلے ساڑھے چار سو سال سے پڑھتے چلے آ رہے ہیں، تاہم جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حکمران اپنی رعایا کے جان اور مال کا محافظ ہوتاہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لئے میں نے ایک پرانا لفظ استعمال کیا تھا Virtus ۔اس کی تشریح تو بہت لمبی ہے مگر اس لفظ پہ بات کرنے سے پہلے ایک اور نقطہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔

حکمران دراصل دو طرح سے بنتے ہیں۔ ۔۔۔ کبھی اپنے اوصاف کے کمال کی وجہ سے اور کبھی قسمت کی دیوی کی مہربانی سے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ آپ کی سپاہ اور آپ کے اوصاف آپ کا ساتھ دینے لگیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ کسی دوسری سپاہ کا سرکش گھوڑا آپ کے سامنے آ کر ٹھہر جائے اور ساتھ ہی ساتھ قسمت کی یونانی دیوی “فارچونا Fortuna ” مہربان ہو جائے۔ مبارک ہیں وہ کہ جن کی جھولی قسمت کی دیوی کی مہربانی سے بھری گئی۔ یہ ذرا باریک نقطہ ہے تم پہ صادق آتا ہے، اسے کبھی نہ بھولنا، کام آئے گا۔

تاریخی طور پر کامیاب حکمران وہ ہوتے ہیں جو اپنے اوصاف حمیدہ کی بناء پر تخت ثریا پر پہنچتے ہیں اور یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے قسمت کی دیوی کو زیر کیا ہوتا ہے۔ سر راہے کہتا چلوں کہ حکمران سے میری مراد یہ نہیں کہ کون آج حکمران ہے اور کون کل ہے۔ حکمران سے میری مراد وہ ہے کہ پہاڑ جس کی ہیبت سے رائی ہو جاتے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ ، حکمران وہ روشن ستارہ ہے جو وقت کے آسمان پر جگمگاتا ہے اور تاریخ کے اوراق اس کی دور رس نگاہ پر دلیل ثبت کرتے ہیں۔ پرانی انگریزی کا Virtus یہی ہے۔

عزیزم ۔۔۔ تم نے جان لیا ہے کہ تم پر قسمت کی دیوی مہربان ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ تم ایک کام بڑا ہی اچھا کر رہے ہو ۔ وہ جو قسمت کی دیوی کی مہربانی سے حکمران بنتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ زمانے کو بدلنے کی بجائے زمانے کی رو سے سمجھوتا کر لیں۔ ان کی حکمرانی کی بقا اسی میں ہے۔

 عزیزی ، لوگ اسے “یو-ٹرن” کا نام دیں گے۔ گھبرانا مت۔ لوگوں کا کیا ہے۔ وہ کہتے رہتے ہیں۔ اور یاد رہے، لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ ہاں ان طاقتور لوگوں سے بات بنا کے رکھنا جو تمہارے اقتدار کی جڑیں کمزور کر سکتے ہوں یا اکھاڑ سکتے ہوں۔ ان کی بات مانو ، مگر اپنی رعایا کو تاثر دو کہ تم طاقت ور طبقے اور عام آدمی کے درمیان ان کی ڈھال ہو۔ اور ہاں، دوست کو دوست رکھو ، کام آتے ہیں اور بہت ضروری ہے کہ دشمن کو سب سے زیادہ دوست رکھو۔

اپنی بات سے تھوڑا بھٹک گیا ہوں مگر میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ جنہوں نے اپنے ہاتھوں قسمت کی دیوی “فارچونا ” کو رام کیا ہو، انہیں بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بنیادی طور پر اوصاف حمیدہ کی وجہ سے فارچونا دیوی نہ تو مہربان ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی مہربانی زیادہ دیر تک قائم رہتی ہے۔ اس لئے دیوی کو مہربان رکھنے کے لئے قوت اور طاقت چاہیے۔ یہاں البتہ تضاد کا زہریلا ناگ میری راہ کھوٹی کرنے لگا ہے۔ تضاد کیا ہے؟ اپنی قوت اور طاقت کا استعمال کرو تو رعایا ناخوش مگر قسمت کی دیوی فارچونا خوش رہتی ہے۔ پرانی یونانی دیو مالا میں “فارچونا ” وہ علامت ہے جو طاقت اور جرات مردانہ پر فریفتہ ہوتی ہے۔ اگر رعایا کی زبوں حالی کا خیال کرو اور طاقتور وں کے مفاد کو فوقیت نہ دو تو قسمت کی دیوی طوطا چشمی پر اتر آتی ہے۔ نیکیء طبع قسمت کی دیوی کا خاصہ کبھی نہیں رہا۔ پس حکمران وہی ہے جو پل صراط کے ان اسرار سے واقف ہو۔

عزیزی عمران، اب تو میں تمہیں وزیراعظم بھی کہنے لگوں تو کیا حرج کی بات ہے مگر مجھے ڈر ہے کہ تمہیں کہیں طاقت کا نشہ نہ ہو جائے اور تم قسمت کی دیوی کی مہربانیوں کو بھول جاو۔ تم مسلمان لوگ ایک خدا کے ماننے والے ہو مگر یونانی دیوی فارچونا سے سبق سیکھو۔ کہتی ہے کہ میں زیادہ دیر کسی پر مہربان نہیں رہتی۔ مگر اسے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں وہ جرات مند آدمی کو پسند کرتی ہے۔ اب بس ، میں یہ بات تم پر چھوڑتا ہوں کہ تم اپنے معاملات میں جرات کا مظاہرہ کرنا چاہو تو کرو اور دیوتاوں کے ہم رکاب ہو جاو۔ یا اپنے مذہبی خیالات کی پاسداری کرو جس میں طاقت کے سامنے اطاعت کا حکم ہے۔

ابھی ذرا دیر پہلے میری گفتگو تمہاری مملکت خداداد کے ایک ماہر ڈاکٹر سے ہوئی۔ وہ بہت سے دوسرے علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ مگر بات سے اندازہ ہو گیا کہ تمہارے ملک کے مسائل، دانشور اور علماء جتنے شدید سمجھتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ کریح صورت ہیں۔ اس ذہن رساء نے مجھ سے بہت سی باتیں کیں۔ گفتگو بار بار پچھلے چند لیڈروں کی اور حکمرانوں کی بیان بازی اور ان کی نیتوں کی طرف جاتی رہی۔ مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ لوگ تمہیں نیک نیت سمجھتے ہیں۔ حکمران کے حق میں یہ بات بڑی خوش آئند ہے۔ اب تمہارے سارے حکومتی ٹولے کے لوگ جو بھی کر رہے ہیں، انہیں کرنے دو۔ تمہاری ذات کا پارس پتھر سب کے گناہ دھو ڈالے گا۔

ویسے ان سے باتوں باتوں میں مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ تمہارے ملک میں نظریے اور سوچ کی بنیاد نہ منطق ہے، نہ فلسفہ اور نہ ہی تاریخ۔ اور تمہارے ملک کے مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ روز بروز کی سطحی سوچ بھی ہے۔ گفتگو میں یہ سامنے آیا کہ تمہارے ملک میں ہر کوئی پچھلے دو ، تین یا حد سے حد چار حکمرانوں کو پوری قوم، قوم کا لفظ مناسب نہیں تم قوم کہاں ہو ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ تمہارا سارا ملک پچھلے تین یا چار حکمرانوں کو ملک کی سیاہ بختی کا نقطہ آغاز سمجھتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تمہارے ملک کا پڑھا لکھا طبقہ بھی تاریخی شعور اور سماجی حرکیات سے کس قدر نابلد ہے۔

میرے روحانی عزیز ۔۔۔ میں تمہیں بتاوں کہ یہ تمیارے حق میں اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ چاہو تو روز روز کوئی ایسی ہوائی بات کرتے رہو جس سے عوام اور خواص بیکار کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہیں یا پنجرے میں محبوس خوش و خرم طوطے کی طرح رٹے رٹائے فقروں کی گردان کرتے رہیں اور ذرا کوئی بات ادھر سے ادھر ہو جائے تو ایک دوسرے پر غدار اور ملک دشمنی کے آوازے کستے ہوئے حملہ کر دیں۔ یہ تمہارے حق میں یہ ماحول بہت اچھا ہے۔ ایسے میں کوئی تم سے تمہارے عمل کا حساب کیا پوچھے گا۔

کل اقوام متحدہ میں تمہاری تقریر سنی اور لوگوں کے داد کے ڈونگرے برستے دیکھے۔ بہت سوچا خاموش رہوں مگر کیا کروں، منہ آئی بات کوئی رہتی ہے۔ سو سنو کہ تاریخ کا دھارا بہت ظالم ہے، اس سے ڈرو۔ وقت سے ڈرو اور زمانے سے خوف کھاو جسے تمہارے قرآن نے “والعصر” کہا ہے۔ والعصر سے خوف کھاو اور عمل صالح کو اپنی ڈھال بناو۔ عمل صالح کیا ہے؟ عمل صالح عوام کے جان اور مال کی حفاظت کے لئے تمہارے ٹھوس اقدامات ہیں۔ انسانوں کو ایک جانو۔ اپنے عوام کو اپنے گھر والوں میں شمار کرو اور اپنے ہمسایوں کو بھی۔ اپنے ہمسائے کی بات توجہ سے سنو اور یاد رکھو کہ ہمسائے کی دشمنی وہ عفریت ہے جو قوموں کو نگل جاتا ہے اور انسانوں کو بھسم کر ڈالتا ہے۔ او ر تو اور، اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے ایٹمی ہتھیار سے بھی ڈرو کہ جس سے ہونے والی تباہی اور بربادی کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کے بعد اس دن سے ڈرو کہ جب تمہارے سامنے کوئی شخص زندہ نہ بچے گا کہ جس پر تم حکومت کر سکو۔

تمہارا خیر اندیش ۔۔۔ نکولو میکاو لی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).