عمران خان کی غیر روایتی انداز کی مؤثر تقریر


وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر اس وقت مختلف آراء کی زد میں ہے۔ مختلف آراء میں سے ایک رائے کے مطابق ”تقریروں سے کیا ہوتا ہے“۔ اس رائے کے پس پردہ متحرک اذہان بقول شخصے بھس سے بھرے ہوں گے جو تقریر کی افادیت اور اہمیت سے ہی یکسر انکاری ہیں۔ بلاشبہ تقریر میں ادا کیے گئے الفاظ اس وقت معتبر ہوتے ہیں جب وہ عمل کے رتھ پر سوار ہو کر منزل کو پا لیں۔ تاہم تقریر کی اہمیت سے یکسر انکار ایک نہایت ہی سطحی سوچ و فکر ہے۔

تقریر اگر اہمیت کی حامل نہیں ہوتی تو آج بھی دنیا میں ان تقاریر کے الفاظ بار بار نہیں گونجتے جو مشاہیر عالم کے لبوں سے پھوٹ کر تاریخ انسانی کا جزو لاینفک بن گئے۔ دنیا کی تاریخ میں کی گئی عظیم تقریروں کی تعداد ان گنت ہو سکتی ہے لیکن تاریخ عالم کی ”سو عظیم تقریریں“ نامی تصنیف ان صاحبان کی فکری آسودگی کے لیے کافی مددگار ثابت ہو گی جو ”تقریروں سے کیا ہوتا ہے“ کا راگ الاپ الاپ کے کانوں کے ساتھ ساتھ دماغ کی بھی چٹنی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

ایک طویل فہرست میں سے اگر فقط چند تقریریں ہی لے لی جائیں جن میں جارج واشنگٹن، ونسٹن چرچل، مارٹن لوتھر کنگ، نپولین بوناپارٹ اور کچھ دوسری معروف شخصیات ہیں تو ان کے الفاظ کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں بھی ایسی تقریروں کی بازگشت ابھی تک سنائی دیتی ہے جنہوں نے اس خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صورتحال بدل کر رکھ دی۔ تقریر کی اہمیت ہوتی ہے اس لیے اج بھی اس خطے کی تاریخ میں ان مقررین کا نام زندہ جاوید ہے جو جوش خطابت سے مجمع کو اپنا دیوانہ بنا لیتے تھے۔

اس تمہید کے بعد عمران خان کی جنرل اسمبلی سے تقریر کو موضوع سخن بناتے ہیں۔ عمران خان کی تقریر کو اگر سیاسی تعصب کی عینک سے نہ دیکھا جائے تو بلاشبہ وزیراعظم نے ایک بہت مدلل، موثر اور جاندار انداز میں اپنے نکات کو پیش کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پلیٹ فارم اراکین ممالک کے سربراہان کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنا نکتہ نظر عالمی سامعین کے سامنے رکھیں۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں۔ جن نکات کو اٹھایا ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

تقریر کی سب سے خاص بات ان کا فی البدیہہ بولنا تھا جس پر تنقید کی گئی ہے لیکن میری دانست میں لکھی ہوئی تقریر کی بجائے فی البدیہہ اظہار نے اس تقریر میں جذبات و تاثرات کے سارے رنگ بھر دیے۔ عمران خان کی باڈی لینگویج بھی ان کے الفاظ کا ساتھ دیتی نظر آئی اور پر اعتماد طریقے سے ان نکات کو موثر انداز میں پیش کرنے میں کامیاب ٹھہرے جو پاکستان کے موقف کے طور پر انہیں پیش کرنا تھا۔ شاید لکھی ہوئی تقریر میں وہ تاثرات اور جذبات دکھائی نہیں دیتے جو عمران خان کے لہجے اور ان کے چہرے سے مترشح تھے۔

ابھی تک سیاسی مخالفین کی جانب سے کی گئی تنقید کسی مدلل نکتے سے محروم ہے کہ وہ تقریر کس طرح مایوس کن قرار دی جا سکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کا تذکرہ اور عالمی رہنماؤں اور فورم کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور کسی لحاظ سے بھی غیر موثر نہ تھا۔ عالمی فورم پر مقبوضہ کشمیر کا ایشو کافی عرصے کے بعد اتنے جاندار طریقے سے ابھرا ہے جس پر عمران خان کو کریڈٹ نہ دینا قرین انصاف نہ ہوگا۔ تقریر پر نکتہ چیں ابھی تک یہ نہیں بتا سکے کہ مقبوضہ کشمیر پر وزیر اعظم کا موقف کس لحاظ سے کمزور تر تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے لے کر کشمیریوں کے لیے حق خودارادیت کے لیے کیا گیا مطالبہ پاکستان کا روز اول سے موقف رہا ہے اور اس کا اعادہ بھرپور طریقے سے کیا گیا ہے۔ اب جنرل اسمبلی کے فورم پر ہندوستان پر فوجی چڑھائی کا اعلان ہونے سے رہا کہ جس پر عمران خان کو رگیدا جائے۔ مغرب میں اسلاموفوبیا کے رجحانات پر بھی عمران خان نے بڑا واضح موقف اختیار کیا اور اس کے تدارک کے لیے ایک مؤثر اپیل کی۔

تقریر کے اس حصے سے کیا اختلاف کیا جا سکتا ہے جس میں وزیر اعظم نے اظہار رائے کے نام پر پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی توہین کے رجحانات کے تدارک کا مطالبہ کیا۔ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لیے وزیر اعظم نے جب اہل مغرب سے اپیل کی تو اس میں کیا حرج ہے اس کا جواب شاید کسی سیاسی مخالف کے پاس نہیں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا یہ حصہ ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے کیونکہ رسول خدا کے بارے میں تضحیک آمیز کارٹون اور فلموں کو آزادی اظہار کسی طور پر بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تقریر میں ترقی یافتہ ملکوں میں جمع ہونے والی وہ دولت جو غریب ممالک کی سیاسی و غیر سیاسیاشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ ہوتی ہے کے بارے میں عمران خان کی لب کشائی کچھ ایسی غلط نہیں۔ پاکستان ان ممالک کی صف میں شامل ہے جہاں سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ نے ملکی وسائل کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ امیر ممالک کو اپنے ہاں ناجائز دولت کو چھپانے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے پر رگیدنے سے یہاں کی کچھ سیاسی جماعتوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھے ہیں وہ قابل فہم ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور عمران خان کی تقریر میں اس موضوع بحث بنانا بر محل تھا کیونکہ پاکستان ان تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ عمران خان اس ملک کے سیاسی طبقے میں وہ پہلا شخص ہے جس نے اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دی ہے۔ درختوں کی تعداد کی بحث سے قطع نظر بہرحال عمران خان کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ ان جماعت کی صوبائی حکومت خیبر پختونخوا نے سب سے پہلے ماحول کی بہتری کے لیے ٹری پراجیکٹ کا اجراء کیا۔

داخلی طور پر عمران خان کی حکومت کی کارکردگی ابھی تک نہایت مایوس کن رہی ہے اور ان سے جڑی توقعات آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی جارہی ہیں۔ تاہم خارجی محاذ پر جنرل اسمبلی سے خطاب سے وزیر اعظم عمران خان نے وقتی طور پر عوامی مقبولیت حاصل کر لی ہے تاہم یہ اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب وہ اندرون ملک معیشت کے شعبے کے ساتھ ساتھ گورننس میں بہتری کے امکانات کو لانے میں کامیاب ہوں جو ابتری اور بد انتظامی کا شکار ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).