دنیا ہماری پکار کب سنے گی؟


نیویارک میں عمران خان سے سوال ہوا کہ ہم پکار پکار کر عالمی برادری کو کشمیر میں بھارتی جارحیت کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جوابأ ہمیں کسی ملک کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا اشارے نہیں مل رہے۔ وزیراعظم نے جواب دیا کہ اور اس کے سوا ہم کربھی کیا سکتے ہیں۔ بھارت پر حملہ کرنے سے تو رہے۔ جنگ کے سوا ہم نے ہر ممکن کوشش کرکے کشمیر کے مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا بھی مثبت کردار ادا کررہا ہے اگر ایسے ہی میڈیا کشمیر پر شورمچاتا رہا تو شاید بوسنیا کی طرح کشمیر پربھی عالمی برادری کوئی ایکشن لے لے۔

وزیراعظم کے اس جواب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دنیا کو بھارت کے ساتھ کشمیر کی بجائے اپنی تجارت زیادہ عزیز ہے۔ اور اس کا برملا اظہار انہوں نے جنرل اسمبلی میں اپنے دھواں دار اور جذبات سے بھرپور خطاب میں بھی کیا۔ ان کی تقریر مسلمانوں کے ’جذبات‘ کی بہترین عکاس تھی۔ مغرب مسلمانوں کو بہت زیادہ جذباتی اور انتہا پسند تصور کرتا ہے۔ اور مختلف موقعوں پر ہم دنیا کو اپنی اس سوچ کا احساس بھی دلاتے رہتے ہیں۔

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں واشگاف الفاظ میں خبردار کیا کہ اگرکسی علاقے کے مظلوم عوام کو دیوار سے لگایا جائے تو وہ آخر کار ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اوروہ خود بھی ایسی کسی صورتحال میں بندوق اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دھمکی نہیں مگر وہ خبردار کر رہے ہیں کہ اگر کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تو پاکستان آخری حد تک جائے گا اور یہ جنگ ایٹمی ہو گی۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ جونہی کشمیر میں کرفیو اٹھا تووہاں ایک بڑا خون خرابہ شروع ہوجائے گا۔

وزیراعظم نے مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی کردی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی جذباتی تقریروں سے عالمی برادری کسی معاملے پر اپنی سوچ میں تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ بہتر ہوتا کہ عمران خان زیادہ جذباتی اور دھمکی آمیز انداز کی بجائے عالمی برادری کو سفارتی طریقے سے خبردار کرتے کہ کشمیر میں حالات خراب ہونے سے جنوبی ایشیاء میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ادھرامریکی وزارت خارجہ کی سینئر افسر ایلس ویلز نے بتایا کہ ٹرمپ۔ مودی ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ کشمیر میں مواصلاتی رابطے جلد بحال کرکے امن وامان قائم کردیا جائے گا اور مقامی لیڈرشپ کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا کہ حکومت کی طرف سے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد ریاست میں خوشحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور انہوں کشمیر کے مسئلے پر پوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔

تاہم امریکی اہلکار نے زور دیا کہ انڈیا کشمیر تمام پابندیاں ختم کرے اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتار افراد اور کشمیری لیڈرز کو رہا کرے۔ دوسری طرف انہوں نے انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات پر کہا کہ چین میں بھی مسلمانوں کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں اس پر بھی برابر کی آواز بلند ہونی چاہیے۔

نریندر مودی اور عمران خان اپنے امریکی دورے میں کامیابیوں کے بگل بجا رہے ہیں مگر اندرونی حالات بتا رے ہیں کہ ان کہ مشکلات جلد ختم ہونے والی نہیں۔ دونوں رہ نماؤں کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عمران خان کے لیے معیشت، سیاسی استحکام اور گورننس کے مسائل ہیں اور مودی کے لیے معیشت کے ساتھ ساتھ کشمیر۔

نریندرمودی کشمیر میں ایک ان دیکھی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ انڈیا کے اندر سنجیدہ حلقوں سے آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ چین، ترکی اور ملائشیاء کے سوا سب ملکوں نے پاکستان کی حمایت کی بجائے انڈیا کے کشمیر میں اقدامات کو شک کا فائدہ دے دیا ہے۔ ابھی تک نریندر مودی دنیا کو بتا رہے ہیں کہ کشمیر میں حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن اگر بھارت کشمیر میں حالات نارمل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے میں ناکام رہا یا پھر عمران خان کے کرفیو کے بعد خون خرابے کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی توبھارت کے لیے اپنے ایکشنز کا دفاع کرنا ناممکن ہو جائے گا۔

ادھر پاکستان میں حال ہی میں ہم نے اپنی ساکھ بہتر کرنے کے لیے ازخود یا دباؤ میں آکر عالمی برادری کو مطمئن کرنے کی بہت سی کوششیں کی ہیں جن میں وزیراعظم کا ایک اہم بیان بھی شامل ہے جس میں انہوں کہا کہ پاکستان کی سرزمین سے کشمیر جہاد کے لیے جانے والا کشمیریوں اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہوگا۔ ایسا کوئی بھی اقدام کشمیریوں سے بڑی دشمنی کے مترادف ہو گا اور پھر بھارت اسے بہانہ بنا کر وہاں کے عوام پر ظلم ستم بڑھا دے گا۔ وزیراعظم کے اس بیان کوزیادہ ترکشمیری اورپاکستان کی سیاسی جماعتوں اور امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری نے بہت سراہا ہے۔ ہم نے جہادی تنظیموں کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کے ساتھ ان کے بنک اکاونٹس منجمد کردیے ہیں۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے نئے قوانین بنا دیے ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں سفارتی محاذ پر کٹھن حالات کا سامنا ہے۔

ہم دہائیاں دے رہے ہیں کہ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں۔ مگر کشمیر پر ہماری بات کیوں نہیں سنی جارہی۔ کیا ہمارے ماضی کے اقدمات سے عالمی برادری ابھی تک ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہی اور ہماری یقین دہانیوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی؟ کیا وجہ ہے کہ مغرب مسلمانوں کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا؟ کیا ہماری معاشی حالت اس قدرکمزورہے اور ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرضوں کا کشکول اٹھائے پھرتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری بات میں وزن نہیں رہا؟ کیا ہم اپنی سرزمین پر موجود شدت پسند گروپوں کے خاتمے کے مطالبے پردنیا کو ابھی تک مطمئن نہیں کرسکے؟ اپنی ساکھ اور بداعتمادی کی فضا بہتر بنانے کے لیے ہمیں تقریروں سے نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات سے مطمئن کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).