مقبوضہ کشمیر میں انتخاب کا حربہ: پاکستان کو مذاکرات کا لالچ


بھارت نے مقبوضہ کشمیرمیں 24 اکتوبر کو مقامی سطح پر کونسل انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ پروگرام کے مطابق یہ انتخاب ملک کے پنچایت راج سسٹم کے تحت کروائے جائیں گے جو بلدیاتی نظام کا نچلا درجہ سمجھا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے انتخابی دفتر کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ یہ انتخاب 316 میں سے 310 حلقوں میں منعقد ہوں گے۔

نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے اسے فیڈریشن کی دو اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔ جموں و کشمیر کے انتظام کے لئے صوبائی اسمبلی منتخب کی جائے گی جبکہ لداخ کو براہ راست نئی دہلی کے زیر انتظام رکھا جائے گا۔ اس فیصلہ پر کشمیری عوام اور سیاسی جماعتوں کے رد عمل سے بچنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں عائد کردی گئی تھیں جن میں کرفیو کے علاوہ مواصلاتی رابطوں کے تمام ذرائع کو ختم کرنا شامل ہے۔

اب بھارتی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ 90 فیصد پابندیاں ختم کردی گئی ہیں جبکہ خود مختار نیوز ایجنسیاں یا صحافی اس کی تصدیق کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ کیوں کہ کشمیر کو 9 لاکھ سیکورٹی فورسز کی مدد سے سخت انتظامی کنٹرول میں رکھا جارہا ہے۔ اس کے علاہ انٹرنیٹ، موبائل اور ٹیلی فون کی سہولتیں بند ہونے اور تمام کشمیری قیادت کو قید کرنے کی وجہ سے، وہاں کے حالات کے بارے میں کوئی مصدقہ و غیر جانبداراطلاعات موصول نہیں ہو پاتیں۔ زیادہ تر اطلاعات سرکاری ذرائع یا حکومتی اہلکاروں کے بیانات میں فراہم کی جاتی ہیں۔

بھارتی آئین سے شق 370 اور 35 اے، کے خاتمہ کے نتیجہ میں کشمیریوں کو حاصل خصوصی سہولتیں ختم ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے اب غیر کشمیری باشندوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق حاصل ہوجائے گا۔ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اسے وفاق کے زیر انتظام اکائی کا درجہ دینے کا اقدام، اس قدر حساس اور سنگین معاملہ ہے کہ بھارتی حکومت کو اسے نافذ کرنے کے لئے کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن کرنا پڑا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کشمیری عوام جبراً مسلطکیے گئے اس فیصلہ کو قبول کرلیں گے۔

پاکستانی وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے علاوہ دیگر مواقع پر بجا طور سے متنبہ کرتے رہے ہیں کہ کشمیر میں پابندیاں ہٹنے پر وہاں خون کی ندیاں بہنے کا اندیشہ ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران بھی متعدد مواقع پر کشمیر سے احتجاج اور سیکورٹی فورسز کے جبر کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ اس لئے یہ خطرہ موجود ہے کہ جب بھی پابندیاں ہٹائی جائیں گی تو عوامی احتجاج ہوگا جسے دبانے کے لئے سیکورٹی فورسز طاقت استعمال کریں گی۔

بھارت کی حکومت اس صورت حال سے بچنا چاہتی ہے تاکہ دنیا کی رائے عامہ کے سامنے اس کی سبکی نہ ہو اور کشمیر کے سوال پر پاکستانی وزیراعظم کا انتباہ درست ثابت ہونے پر عالمی دباؤ میں اضافہ نہ ہوجائے۔ اسی لئے نہایت چالاکی سے کشمیر کو سخت انتظامی کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ کئی ہزار کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے بھارت کی دیگر جیلوں میں بھیجا گیا ہے اور بھارت نواز کشمیری لیڈروں کو بھی قید کرلیا گیا ہے۔ تاہم کشمیر کے مواصلاتی کنٹرول کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ صورت حال بھارتی حکام کے قابو میں نہیں ہے۔ اسی لئے کشمیر کے چیف الیکٹورل افسر کی جانب سے مقامی انتخابات کا اعلان حیران کن ہے۔ اس فیصلہ کی حکمت اور اس کے پس منظر کو سمجھنا پاکستان کی کشمیر پالیسی کے لئے اہم ہو گا۔

مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلہ کو انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور کشمیری لیڈروں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ ان درخواستوں پر 2 اکتوبر سے بھارتی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ باقاعدہ سماعت شروع کرے گا۔ کشمیر میں عائد کی گئی پابندیوں کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر مداخلت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ عدالت نے بھارتی حکومت کے اس مؤقف کو تسلیم کیاتھا کہ وہاں امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنے اور انسانوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے یہ پابندیاں ضروری تھیں۔

بعد کی سماعتوں میں اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ پابندیاں کم کی گئی ہیں اور اب وہاں صورت حال بہت بہتر ہے۔ تاہم کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا معاملہ اس بنیادی قانونی اصول سے تعلق رکھتا ہے کہ بھارتی حکومت ایک صدارتی حکم کے ذریعے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم نہیں کرسکتی کیوں کہ اسی شق میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومت کو کشمیر اسمبلی کی اجازت کے بغیرکسی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے۔

اب مقبوضہ کشمیر میں مقامی سطح پر بلدیاتی انتخابات منعقدکروانے کے اعلان کو سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے اس دلیل کے طور پر پیش کیا جائے گا کہ وہاں حالات کنٹرول میں ہیں۔ یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اس معاملہ کا آئینی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے، اس کے سیاسی اور انتظامی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرے گی۔ دوران سماعت اگر حکومت یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ کشمیر میں حالات تقریباً معمول پرہیں اور اس کی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ کشمیریوں کی حیثیت یا حق کم کرنے کے لئے نہیں بلکہ انہیں باقی بھارتی شہریوں کے مساوی حقوق دینے کے لئے کیا گیا ہے تو سپریم کورٹ شاید شق 370 کو بحال کرنے کا فیصلہ نہ کرپائے۔

ہراس اور جبر کے علاوہ غیر یقینی قانونی صورت حال کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں مقامی سطح پر انتخاب کروانے کے اچانک اعلان کو عالمی تناظر اور کشمیر میں پابندیوں پر امریکہ اور دنیا کی تشویش کے حوالے سے بھی دیکھنا چاہیے۔ ویک اینڈ سے پہلے امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کشمیر کے حالات اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بعض اہم باتیں کہی تھیں جن پر عمران خان کی جنرل اسمبلی میں تقریر پر اٹھنے والے تحسین و آفرین کے طوفان میں غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس گفتگو میں ایلس ویلز نے دو اہم باتیں کی تھیں جنہیں حکومت پاکستان کی مستقبل میں کشمیر پالیسی کو سمجھنے اور بھارت کے ساتھ موجودہ تصادم کے خاتمہ کے حوالے سے کلیدی اہمیت حاصل ہوسکتی ہے۔

ایلس ویلز نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مداخلت نہ کرنے کی جو یقین دہانی کروائی ہے، اگر اس پر عملدرآمد ہوتا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم بار بار یہ یقین دلوا چکے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورت حال کے باوجود وہاں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اقوام متحدہ روانہ ہونے سے پہلے طورخم کے مقام پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر جانے والا کوئی بھی شخص کشمیریوں اور پاکستان کا دشمن ہوگا۔

پاکستان کو اندیشہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ طرز کاکوئی واقعہ رونما ہونے کی صورت میں بھارت، پاکستان پر الزام لگائے گا جس کے نتیجہ میں دونوں ملکوں میں تباہ کن جنگ ہو سکتی ہے۔ عمران خان کی نیویارک میں موجودگی کے دوران ہی پاکستانی حکام نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملکوں کے سفیروں کو پیش کش کی تھی کہ وہ خود جاکر دیکھ لیں کہ بھارتی آرمی چیف نے بالاکوٹ کے علاقے میں دہشت گردوں کے جس کیمپ کا دعویٰ کیا ہے، اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

عمران خان نے جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے حوالے یہ بات بھی کہی کہ بھارت دعویٰ کررہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی طرف سے 500 دہشت گرد بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا پانچ سو دہشت گرد 9 لاکھ بھارتی فوج کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ پاکستان بھارتی زیر انتظام کشمیر میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایلس ویلز اسی یقین دہانی کا ذکر کرتے ہوئے پاک بھارت مذاکرات کی نوید سنا رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ الزامات، پر جوش تقریروں اور جنگ کے اندیشوں کے ہنگامے میں درپردہ سفارتی سطح پر دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان مذاکرات و مصالحت کے لئے ان دو نکات کو ملاکر کوئی واضح تصویر بنانے کی کوشش ہورہی ہو۔

امریکی وزارت خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار ایلس ویلز نے اسی بیان میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر میں سیاسی عمل شروع کرنے، گرفتار سیاسی لیڈروں کو رہا کرنے اور انتخابات کا وعدہ پورا کرنے کی یاددہانی بھی کروائی تھی۔ واضح رہے کہ یہ انتخابات کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیر کو دو اکائیوں میں تقسیم کرنے کے لئے منظورکیے جانے والے متنازعہ قانون کے تحت کروائے جائیں گے۔

امریکی وزارت خارجہ کی نمائیدہ کا یہ بیان دراصل بھارتی حکومت کی قانونی اور سیاسی پوزیشن کی تائد کے مساوی ہے۔ البتہ پاکستان میں نہ اس معاملہ پر کوئی مباحثہ دیکھنے میں آیا ہے اور نہ ہی حکومت پاکستان نے اس امریکی مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور پاکستان کا مطالبہ ہے کہ اس مسئلہ کو کشمیری عوام کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔

پاکستان کی کشمیر پالیسی میں جذبے کی فراوانی میں تو کوئی شبہ نہیں ہے لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا پاکستانی قیادت کے پاس اس پیچیدہ اور مشکل مسئلہ سے نمٹنے اور بھارت کے سفارتی حربوں کا جواب دینے کے لئے سفارتی فراست اور سیاسی حوصلہ بھی موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali