حافظ سعید، لدھیانوی اور مسعود اظہر: کیا پولیس مقابلے ہوں گے؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

ڈان میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پیر کو وزیراعظم ہاؤس میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری صاحب نے مختلف ممالک میں کشمیر اور دوسرے معاملات پر پاکستان کا موقف پیش کیے جانے پر اسے بری طرح نظرانداز کرنے کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ ممالک جواب میں حافظ سعید، مولانا مسعود اظہر اور حقانی نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہیں، گویا پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ چین جیسا دوست بھی یہ پوچھنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ مولانا مسعود اظہر کے متعلق اقوام متحدہ کی پابندی کو وہ کب تک تکنیکی بنیادوں پر مسترد کرتا رہے گا اور ایسا کرنے کی منطق آخر ہے کیا؟ پاکستان شدید عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔

خبر میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر صاحب نے اعزاز چودھری صاحب سے پوچھا کہ یہ تنہائی ختم کرنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس پر اعزاز چودھری صاحب نے بین الاقوامی طور پر دہشت گرد سمجھے جانے والوں کے خلاف کارروائی کی تجویز پیش کی۔ جنرل صاحب کہا کہ حکومت جسے گرفتار کرنا چاہتی ہے اسے کر لے۔ اس پر شہباز شریف صاحب نے آئی ایس آئی کے سربراہ سے شکوہ کیا کہ جب بھی وہ چند خاص گروہوں کے خلاف ایکشن لیتے ہیں تو مقتدر قوتیں ان کو رہا کروانے کے لئے پس پردہ طور پر سرگرم ہو جاتی ہیں۔

اس پر فیصلہ کیا گیا کہ جنرل رضوان اختر صاحب اور وزیراعظم کے قومی سلامی کے مشیر نصیر جنجوعہ صاحب تمام صوبوں کا دورہ کر کے وہاں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈروں ایپکس کمیٹیوں کو اس نئی پالیسی کے متعلق ہدایات دیں گے۔

وزیراعظم نواز شریف صاحب کے ترجمان نے ڈان کی اس خبر کو تصوراتی، گمراہ کن اور حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔

مگر ملک بھر میں یہی تاثر پھیلا ہوا ہے کہ خبر میں صداقت کے آثار ہیں۔

انتہاپسند سمجھی جانے والی تنظیموں میں اس خبر کے حوالے سے خاص طور پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ کچھ عرصے پہلے ہی ملک اسحاق ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔ ایسے پولیس مقابلے جن میں ملزمان کو نشاندہی یا برآمدگی وغیرہ کے لئے لے جایا جا رہا ہو اور ان کے ساتھی حملہ کر دیں اور ملزمان سمیت مارے جائیں، ملک میں جس نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں وہ پڑھنے والوں کے علم میں ہے۔

سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا ایسی کارروائیوں کا دور تو شروع نہیں کیا جانے لگا ہے؟

اس وقت کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد فاٹا میں تحریک طالبان کا زور توڑنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر ان تنظیموں کے خلاف کوئی غیر شفاف ایکشن لیا گیا تو اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ جماعت الدعوہ کی قوت کا اندازہ پچاس ہزار سے زائد لگایا جاتا ہے۔ اہل سنت و الجماعت بھی ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ جنرل ضیا کے دور سے پاکستان میں ”دو برادر اسلامی ملکوں“ کی پراکسی وار میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمدؐ پر قتل و غارت کے الزامات لگتے رہے تھے۔ اب گزشتہ کئی برسوں سے ان دونوں کالعدم تنظیموں کا نام دہشت گردی کے ذیل میں نہیں لیا جاتا ہے۔ سپاہ صحابہ کے انتہاپسند عناصر لشکر جھنگوی بنا کر الگ ہو گئے تھے اور نسبتاً معتدل عناصر اہل سنت و الجماعت کے نام سے تنظیم بنا کر دوبارہ سامنے آئے تھے جن کی سربراہی مولانا احمد لدھیانوی صاحب کر رہے ہیں۔۔ ایسے ہی سے حالات میں الگ ہونے والے الیاس کاشمیری کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے الگ ہو کر دہشت گردی سے ریاست کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔

ایسے میں بہتر ہے کہ ان تنظیموں کو، یعنی جماعت الدعوہ اور اہل سنت و الجماعت کو، باوقار انداز میں ریاستی کنٹرول میں لانے کی کوئی آپشن دی جائے۔ ان کے خلاف اندھا دھند کریک ڈاؤن کرنے کی صورت میں انتہا پسند ہو کر الگ ہو جانے والے لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان وغیرہ کا رخ کریں گے اور ریاست ایک مرتبہ پھر ایک شدید جنگ میں الجھ سکتی ہے۔ ہمارے سامنے سندھ میں پیر پگارہ کی حر فورس کی مثال موجود ہے۔ ان تنظیموں کے لئے بھی ویسا ہی سا کوئی حل ڈھونڈا جا سکتا ہے لیکن اس انداز سے کہ ایسی کسی ممکنہ فورس کے افسران ریاست کی جانب سے مقرر کیے جائیں اور اراکین کو منظم کر کے ان کو بھی ریاستی فورس کے طور پر ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ ان افسران کے بارے میں یقینی بنایا جائے کہ وہ فرقہ واریت یا انتہاپسندی سے دور لے جانے کا باعث بنیں گے۔

جماعت الدعوہ کے بارے میں کچھ دن پہلے خبر پھیلی تھی کہ اس نے لاہور میں اپنی متوازی عدلیہ قائم کی ہوئی ہے جس کی جماعت الدعوہ نے تردید کی تھی۔ ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ نظام انصاف اس کے علاوہ کسی کے پاس نہ جائے۔ نظام انصاف کے حکومت سے چھن جانے نے ہی سوات میں طالبان کی حکومت کو جنم دیا تھا۔ جماعت الدعوہ کی ملک بھر میں نمائندگی دیکھنے میں آتی ہے۔ آٹھ اکتوبر کا ہی دن تھا جب ملکی تاریخ کا بھیانک ترین زلزلہ آیا تھا اور اس میں تباہ حال عوام کی سب سے زیادہ مدد کرنے والوں میں جماعت الدعوہ والے ہی سب سے آگے دکھائی دیے تھے۔ اس وقت بھی لاہور کے کسی بھی بڑے ہسپتال کے اندر اس تنظیم کی پانچ دس ایمبولینسیں کھڑی دکھائی دیں گی۔ ریاست کو ایسا لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ یہ قوت عوام کی فلاح اور قانون کی سربلندی کے لئے استعمال کی جا سکے اور اس کا دور دور تک کوئی تعلق بھی عسکریت پسندی سے نہ ہو۔

دوسری طرف ان جماعتوں کو بھی ہر ممکن طور پر یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ ملک میں یا ملک سے باہر ہونے والی دہشت گردی سے کسی بھی طرح ان کا نام نہ جوڑا جا سکتے۔ مخالف فرقے کے تمام افراد تلوار سے ختم نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ نہ ہی مخالف ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ رہنا سیکھنا ہو گا۔ وہ دور ختم ہو چکا ہے جب کہ جنگ کے ذریعے دشمن ممالک ختم کیے جا سکتے تھے۔ جماعت الدعوہ کو بین الاقوامی معاملات پر بیان دینے سے مکمل احتراز کرنا ہو گا اور دوسری انتہاپسند سمجھی جانے والی تنظیموں کو فرقہ واریت سے ہٹنا پڑے گا۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ حکومت کے پاس واقعی کوئی دوسری آپشن باقی نہیں رہے گی۔

کشمیر کی حالیہ تحریک کو ساری دنیا ایک مکمل طور پر اندرونی تحریک قرار دے رہی تھی اور بھارت ایک نازک پوزیشن پر تھا۔ ایسے میں حافظ سعید صاحب کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات نے بھارتی حکومت کو بین الاقوامی فورم پر اپنی صفائی میں یہ کہنے کا موقع فراہم کر دیا کہ یہ تو پاکستان کی طرف سے لگائی جانے والی آگ ہے۔ ایسے ہی سی پیک کے روٹ کی حفاظت کے متعلق حافظ سعید صاحب کے بیان سے چینی حکومت بھی بے چینی کا شکار دکھائی دی تھی۔ مناسب یہی ہے کہ خارجہ معاملات کو مکمل طور پر حکومت پاکستان کے ہاتھ میں ہی دیا جائے اور حافظ سعید صاحب فلاح انسانیت پر مکمل طور پر فوکس کریں۔

مولانا مسعود اظہر کو بھی جیش محمدؐ کی سرگرمیوں کو عسکری سے ہٹا کر فلاحی کاموں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ بدلی ہوئی دنیا میں یہ عسکریت پسندی پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہے۔ بھارت سے معاملات، جنگ اور امن کو، صرف حکومت کے کنٹرول میں ہی دینا ہو گا۔ جس کشتی کے چار ملاح ہوں جو کہ الگ الگ سمت میں چپو چلا رہے ہوں، وہ کبھی منزل پر نہیں پہنچتی ہے۔ حکومت کو اس نیّا کا ناخدا ماننا پڑے گا تو ہی عوام کی حالت بہتر ہو گی۔

اس محرم میں اہل سنت و الجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی صاحب کو بھی اہل تشیع کے بارے میں ایسے بیانات دینے چاہئیں اور ایسا عملی رویہ پیش کرنا چاہیے جس سے ظاہر ہو کہ شدید مسلکی اختلاف رکھنے کے باوجود اہل سنت و الجماعت امن کی پیامبر کے طور پر اہل تشیع اور دوسرے پاکستانی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے کوشاں ہے۔

حکومت کو نہایت سوچ سمجھ کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے قومی یکجہتی میں اضافہ ہو، نہ کہ جلد بازی، جذبات یا بین الاقوامی دباؤ کے تحت ایسے اقدامات کر لئے جائیں جو کہ تفرقے اور انتشار کا باعث بنیں اور ملک پر چھائے ہوئے دہشت گردی کے بادل مزید گہرے ہو جائیں۔

جہاں تک حقانی نیٹ ورک کا معاملہ ہے، تو ایک دن ہمیں اس پر فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔ معاملہ جتنی تاخیر کا شکار ہو گا، پاکستان کے لئے اتنی ہی مشکلات بڑھیں گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments