عمران خان کی تسبیح، بے نظیر کا دوپٹہ اور حکمران کا منصب


چند دن پہلے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی مشترکہ پریس کانفرنس تھی۔ اس بات سے قطع نظر کہ عمران خان بہت اچھے انداز میں صورت حال سےنپٹ رہے تھے۔ لیکن جو بات میری سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی وہ عمران خان کے ہاتھ میں پکڑی تسبیح تھی جس کے دانے مسلسل نیچے گرتے جا رہے تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ عمران خان اس وقت کسی بھی قسم کا اسم اعظم یا کوئی اور مذہبی کلمات ادا نہیں کر رہے تھے بلکہ انگریزی میں سوالوں کا جواب دے رہے تھے، مختلف موضوعات پر یا اپنا نقطہ نظر واضح کر رہے تھے۔ یعنی یوں کہا جا سکتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی حرکت ایک میکانکی عمل تھا اور اُن کے اس فعل کا کسی بھی قسم کی عبادت سے یا مذہبی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سادہ لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان پریس کانفرنس کے دوران ایک مذہبی ڈرامے بازی میں مصروف تھے ، اور وہ اُن اہم لمحات میں پاکستانی عوام کو نہیں بھولے تھے ، اُن کے اس فعل کے مطلوبہ یا متوقع ناظرین پاکستانی عوام تھے کہ وہ یہ جان پائیں کہ اُن کے وزیر اعظم نے امریکہ جا کر بھی اپنے مذہب سے غفلت نہیں برتی۔

لیکن کیا ہمارے وزیر اعظم واقعی اتنی مذہبی ہیں، جیسا کہ وہ لوگوں سے توقع کرتے ہیں کہ انہیں سمجھا جائے؟ ایک وقت تھا کہ بے نظیر بھٹو بھی اپنے دور حکومت میں ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتی تھی اور اُن کی تسبیح کے دانے بھی مسلسل حرکت میں رہتے تھے۔ انہوں نے کبھی دوپٹے کو سر سے ڈھلکنے نہیں دیا۔ پیروں فقیروں کے پا س بھی جاتی تھی اور ان کے کے مقدس قدموں میں بھی بیٹھ کر عقیدت کے پھول نچھاور کیا کرتی تھی۔کیا بے نظیر واقعی اتنی مذہبی تھیں جتنا وہ چاہتی تھیں کہ انہیں سمجھا جائے؟

کیا عمران خان واقعی اتنےمذہبی ہیں جیسے وہ تاثر دے رہے ہیں۔ کیا واقعی آکسفورڈ کے پڑھے لکھے لوگ واقعی اتنے مذہبی ہیں یا ہو سکتے ہیں۔ یا وہ ایک واہمے کا شکار ہیں کہ انہیں احساس ہے کہ اگر وہ ایک شدید قسم کی مذہبی کی شبیہ نہیں اپنائیں گے تو لوگ انہیں پسند نہیں کریں گے، اور اُنہیں شاہی مسند سے اٹھا پھینکیں گے۔

کیا تاریخ میں واقعی کبھی ایسا ہوا ہے کہ لوگ اپنے حاکم کے مذہبی اطوار و لباس کا اس قدر اہمیت د یں جیسے ہمارے حاکم سمجھتے ہیں؟۔ یا کہ عام لوگوں کے نزدیک اہمیت حاکم کے لباس و اطوار اور پرہیزگاری اور پارسائی کی نہیں ہوتی بلکہ اُن کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اُن کا حاکم اپنی حاکمانہ ذمہ داریوں کو کیسے نبھا رہا ہے، اُن کے مسائل میں کس قدر کمی کر رہا ہے ، اُن کی حالات کو کس قدر بہتر بنا رہا ہے یا بنانے جا رہا ہے۔

اگر عوام کے نزدیک حاکمیت کے لیے مذہبی ہونا واقعی اس قدر ضروری ہے جیسا ہمارے حاکم سمجھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی کسی مذہبی شخصیت کو اپنا حاکم منتخب نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے ہمیشہ داڑھی منڈوں کو ہی اپنا حاکم منتخب کیا ہے کیونکہ انہیں حاکم سے مذہب سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذہب یا مذہبی تعلیمات کے لیے عوام کے پاس مذہبی پیشوا، امام مسجد اور مولوی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اسی لیے انہوں نے کبھی حاکم سے مذہبی پاٹھ پڑھانے کی فرمائش یا مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ ایک ایسے حاکم کو پسند کیا جو مذہبی ڈرامے بازی کی بجائے اُن کے لیے اُن کے حالات کو سدھارے، اُن کی زندگی میں آسانیاں اور خوشیاں فراہم کرے۔

ذوالفقار بھٹو کوئی صدیوں پرانا کردار نہیں۔ اُس نے عوام کو کچھ دیا ہو یہ نہ دیا ہو لیکن ایک بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ لوگوں کو یہ شعور دینے میں ضرور کامیاب ہوا کہ طاقت کا منبع تم عوام ہو اور عوام اس پر اس قدر مر مٹے کہ جب بھٹو نے کھلے جلسے میں اپنے شراب پینے کا یوں اقرار کیا کہ میں شراب پیتا ہوں کسی کا خون نہیں پیتا تو کسی کو بھی اُس کے شرابی ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا، کسی نے اُسے ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ تاریخ میں اکثر ہوا ہے کہ لوگوں نے معاشی مفادات یا ناجائز ٹیکسوں سے بچنے کے خاطر اپنے مذہب تک تبدیل کیے، وگرنہ اچھی اخلاق و اقدار کی تلقین تو ہر مذہب کرتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی مذہب کے ماننے والوں نے اپنے بزرگوں کا مذہب اپنی مذہبی تعلیمات کے بُرے ہونے کی وجہ سے تبدیل کیا ہو،بلکہ انہیں نیا عقیدہ قبول کرنے میں فوائد نظر آئے تو انہوں نے اپنے اسلاف کا صدیوں پرانا مذہب تبدیل کر لیا۔

خلافتوں کا زمانہ گزر چکا ہے کہ حاکم وقت امام مسجد کے فرائض بھی انجام دے ، آج کے لوگوں کو حاکم کے روپ میں ایک امام مسجد یا عالم دین کی توقع نہیں ہوتی وہ حاکم سے ایک بہتر حکومت کی توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا حاکم انہیں ڈیلیور کیا کر رہا ہے۔اور اس سے ہٹ کر انہیں کسی بات سے غرض نہیں ہوتی۔ ترکی جیسے سیکولر معاشرے نے طییپ ریجیپ ایردوان کی اسلام کا احیا کرنے والی حکومت کو اسی وجہ سےقبول کیے رکھا کہ شروع کے چند سالوں میں اُس نے ملک کو ترقی دی، عوام کی معاشی حالت کو سدھارا۔ ملک میں خوشحالی آئی۔ لیکن اب جب کہ ملک کی معیشت بہت نیچے بیٹھ چکی ہے تو اسی ایردوان کی حکومت غیر مقبو ل ہو چکی ہے اور عام باتیں ہو رہی ہیں کہ اگلا وزیر اعظم مصطفیٰ کمال کی پارٹی سے استنبول کا منتخب ہونے والا میئر ایکرام امام اوعلو ہو گا۔

صحیح سال یاد نہیں رہا لیکن بہت سال پہلے کی بات ہے کہ شائد پیرو نے ایک جاپانی کو اپنے ملک کا سربراہ یہ سوچ کر بنایا کہ وہ اُن کے ملک کو بھی جاپان جیسا ترقی یافتہ بنائے گا۔ انہیں اُس کی شہریت کی پرواہ نہیں تھی۔ اُس کے “عجیب” نقوش سے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے پیرو کے عوام کی خواہشات پوری نہ ہوئیں۔ اُس جاپانی نے صدر بن کر پیرو کو لوٹا، اور اپنی مدت حکومت پوری ہونے کے فوراَ بعد یا اس سے کچھ پہلے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جاپان واپس چلا گیا۔ پیرو نے کوشش کی کہ اس کو واپس لایا جائے کہ اُس کی لوٹا ہوا مال واپس لے سکیں، اسے اس لوٹ مار کی سزا دیں سکیں، لیکن جاپان نے اپنے شہری کو واپس نہیں بھیجنے سے انکار کر دیا۔ عمران خان یا بے نظیر جیسے لوگ اپنی اس مذہبی ڈرامے بازی سے اُس مذہبی دلدل کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنے یا بن رہے ہیں، جس کے اندر وہ خود کو قید پاتے ہیں۔ عوام کو کبھی ان کی ایسی حرکات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ عوام ایک غیر مذہبی کو بھی بطور حاکم پسند کریں گے بشرطیکہ ان کے مسائل کو حل کرے۔ ہاں مذہبی لوگ ضرور واویلا کریں گے کیونکہ مذہب اُن کا دھندا ہے اور بقول شاہ رخ خان دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں۔ لیکن اگر عوام کی اکثریت حاکم کے ساتھ ہوں تو دھندے بازوں کی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).