کتابوں کے مضر اثرات


\"ali-raza\"کتابوں سے محبت، کتابوں کے مطالعہ، معاشرے کی تعمیر میں کتابوں کے کردار، اور نئی نسل میں کتابوں کے فروغ کی ضرورت وغیرہ پر آپ نے بہت پڑھا اور سنا ہو گا۔ غالب امکان یہ ہے کہ اس سارے قضیے سے آپ اکتا بھی چکے ہوں گے۔ ہر وقت کہیں نہ کہیں سے کتابوں سے دوری کا نوحہ سنائی دیتا ہے۔ سول سروس کا نتیجہ برا آجائے تو اس کی ذمہ داری کتابوں سے دوری پر ڈالی جاتی ہے۔ شدت پسندی کا سبب کتاب سے ناآشنائی بتایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دین سے دوری کا سبب بھی مذہبی کتب کا نہ پڑھا جانا بتایا جاتا ہے۔ اس لیے اس بے اثر اور فقط دل کو تسلی دینے والی مشق کو اب ختم کردینا چاہیے۔ جس نے کتابیں پڑھنی ہوں گی وہ کسی کے مشورے کے بغیر بھی پڑھ لے گا اور جس نے نہیں پڑھنی وہ آپ کا کالم بھی نہیں پڑھے گا۔

کتابوں کے فوائد کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے پر حیرت اس پر ہے کہ کسی کی نظر اس کے نقصانات پر نہیں گئی. انصاف کا عین تقاضا ہے کہ اب کتابوں کے مضر اثرات پر روشنی ڈالی جائے اور قوم کو یہ بتایا جائے کہ کتابیں انفرادی اور اجتماعی زندگی کو کیسے بے سکونی میں ڈال دیتی ہیں۔

یہ بات ہے اس سنہرے دور کی جب دنیا پر ہماری حکمرانی تھی۔ امن اور رزق کی فراوانی تھی۔ بکری اور شیر ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ کسی قسم کی انفرادی و اجتماعی الجھنیں نہیں تھیں۔ لیکن پھر ہمیں کسی کی نظر لگ گئی۔ کچھ شر پسند عناصر نے فلسفے اور سائنس کی کتابیں پڑھنا اور پڑھانا شروع کر دیں۔ بس پھر کیا تھا، انفرادی و اجتماعی سکون برباد ہوگیا۔ لوگ طے شدہ امور پر سوچنے اور بات کرنے لگے۔ کچھ صدیوں تک یہ بے سکونی چلی، روز ہی ہنگامہ رہتا تھا، روز نئی دریافتیں اور انکشافات ہوتے تھے۔ بے تحاشا کتابیں لکھی جانے لگیں اور معاشرے کا انتشار بڑھتا چلا گیا. لیکن پھر کچھ اچھے درد دل رکھنے والے لوگ سامنے آئے جنہوں نے کتابوں کے مضر اثرات پر روشنی ڈالنی شروع کی اور رفتہ رفتہ ان کی کاوشوں سے شر پسند سائنسدانوں اور فلسفیوں کا محاسبہ ہونا شروع ہوا، انھیں قید کیا گیا، کہیں مارا گیا اور کہیں جلا وطن کیا گیا۔ پھر جابر سماج میں کچھ سکون ہوا۔ لیکن پھر بھی کتابیں تو موجود تھیں۔آخر ہلاکو خان کے عذاب نے ہمارے آباء کو کتابوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس کے بعد کئی صدیوں تک مسلم معاشروں میں چین رہا۔

برصغیر میں حالات بہتر تھے۔ کتابیں شاذو ناذر تھیں۔ چھاپہ خانہ تک مغلوں کی مہربانی سے نہیں آیا تھا۔ لیکن پھر قسمت کی ستم ظریفی سے انگریز نازل ہو گئے اور ساتھ لے آئے کتابیں. بس پھر کیا تھا، انفرادی و اجتماعی سکون برباد ہوگیا۔ لڑکے بالے تک طے شدہ امور پر بات کرنے لگے۔ کمی کمین اور اونچی ذاتوں کی برابری کی باتیں ہونے لگیں۔ عقل کا بھوت ایسا سوار ہوا کہ کچھ کہنے لگ کہ ہم مولوی کے بغیر صرف کتابیں پڑھ کر مذہب سمجھ لیں گے۔ کچھ آزادی اور ملک چلانے کی باتیں کرنے لگے۔ بس پھر کیا تھا روز ہنگامے، ہڑتالیں اور قتل و غارت گری۔ اسی دوران ایک ملک کے دو بن گئے.

 ایک ملک ہمیں ملا جہاں ہمارے بڑوں نے انتشار سے بچنے کے لیے آپس میں مل کر ہر معاملے میں طے شدہ امور متعین کردیا، جن پر بات کرنا اور سوچنا گناہ قرار پایا۔ اب شکر یہ ہے کہ ہماری اکثریت صرف مطالعہ پاکستان پڑھتی ہے اور طے شدہ امور پر آواز نہیں اٹھاتی اور اسی سبب ہماری نظریاتی سرحدیں محفوظ ہیں۔

تاہم پچھلے کچھ سالوں سے بدبخت انٹرنیٹ کی وجہ سے آن لائن فضول کی کتابیں اور بیکار کا علم معاشرے میں در آیا ہے اور کچھ بے وقوفوں نے عجیب عجیب کتابیں لکھنی بھی شروع کر دی ہیں. جیسے ایک صاحب ہیں ڈاکٹر مبارک علی جو خود کو تاریخ دان کہتے ہیں اور مسلسل تاریخ پر ایسی باتیں لکھ رہے ہیں جو مطالعہ پاکستان میں بیان کیے گئے طے شدہ امور کے خلاف جاتی ہیں۔ ایک اور صاحب ہیں، نام کے کے عزیز ہے، وہ تاریخ کے قتل کی باتیں کر کے لوگوں کو مطالعہ پاکستان سے گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگ ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی باتیں کرتے ہیں۔ ان میں ایک کوئی یونیورسٹی ٹیچر ہے خود کو کسی کا \”بھائی \” کہتا ہے۔ کچھ انسانی حقوق خصوصا اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں حالانکہ اقلیتوں کو تو پہلے ہی اتنے زیادہ حقوق حاصل ہیں کہ ان سے سنبھلتے نہیں۔ کچھ مغرب سے متاثر عورتیں حقوق نسواں کی باتیں کرتیں ہیں اور صدیوں سے قائم روایت کو توڑنا چاہتی ہیں۔ اور سب سے برے وہ لو گ ہیں جو انسانوں کے حق حکمرانی کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ تقریبا ثابت شدہ ہے کہ یہ لوگ فرد اور معاشرے کے سکون کو قلم اورکتاب کے ذریعے برباد کرنے کے مشن پر ہیں۔

ان تمام باتوں کے مد نظر یہ عین صائب ہے کہ کتابوں سے بیزاری کی عادت اپنائی جائے۔ مطالعہ سے پرہیز ہی بہتر ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مطالعہ شروع کریں اور اپنی انفرادی زندگی میں طے شدہ امور کے خلاف سوچنا ، بولنا، اور عمل کرنا شروع کردیں۔ اگر پڑھنے کی بہت ہی خواہش ہو تو چٹ پٹی خبریں، ضرورت رشتہ کے اشتہارات یا کوئی بھی غیر سنجیدہ چیز پڑھ لیں۔ بچوں کو بھی غیر نصابی کتب کی پہنچ سے دور رکھیں۔ بیگمات کو ہدایت کریں کہ وہ صرف کھانے کی ترکیبیں، دوائیوں کے نسخے اور شوہر قابو کرنے کے ٹوٹکے پڑھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments