بیمار اور لاچار خواتین کی کہانی اور ہماری حکومت کے اقدامات


ایک پسماندہ شہر کے ہسپتال کے باہر ایک بیمار اور لاچار سی خاتون ایک نوجوان کا سہارا لیے کھڑی تھیں، پریشانی جس کے چہرے سے عیاں تھی۔ میرے استفسار پر لڑکے نے بتایا کہ یہ اس کی والدہ ہیں جنہیں ڈاکٹرز نے سی ٹی سکین کروانے کے لیے کہا ہے اور یہاں قرب و جوار میں یہ سہولت موجود نہیں، اس کے لئے انہیں دور دراز کا سفر کر کے ملتان جانا ہوگا۔

یہ غریب لوگ لمبے سفر کے اخراجات (جس کے لیے بسا اوقات ادھار بھی پکڑنا پڑتا ہے ) اور صعوبتیں برداشت کرکے کسی بڑے شہر کے سرکاری ہسپتال میں پہنچ بھی جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت کے وہاں سی ٹی سکین مشین درست حالت میں ہوگی اور مریض اس مفت سہولت سے فائدہ اٹھا سکے گا؟ سرکاری ہسپتالوں میں اس طرح کی مشینیں جان بوجھ کر بھی خراب رکھی جاتی ہیں تاکہ اس سے پرائیویٹ کلینکس اور لیبارٹریوں کا دھندا چلتا رہے جس میں سرکاری ہسپتال کے بدعنوان عملے کابھی حصہ ( کمیشن) ہوتا۔

اس کے لیے حکومت پنجاب نے ہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں سی ٹی سکین کی سہولت کی مفت فراہمی کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اور اسے بعض بدعنوان اور بدنیت سرکاری سٹاف کی دستبرد سے بچانے کے لیے ”پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل“ میں تبدیل کردیا۔ اس کے لیے قواعد و ضوابط کے مطابق باقاعدہ بڈنگ کروائی، 6 انٹر نیشنل کمپنیوں نے جس میں حصہ لیا اور جاپان کی ہٹاچی نے بولی جیت لی۔

اس کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں جدید معیار کی عمارت کی فراہمی ہمارے ذمے تھی جس میں سی ٹی سکین کا کمرہ، کنٹرول روم اور ویٹنگ ایریا شامل تھے۔ سی ٹی سکین کے اس سارے عمل میں ہسپتال کے سرکاری سٹاف کا کوئی عمل دخل نہ تھا، سوائے اس کے کہ میڈیکل سپریٹنڈنٹ یا متعلقہ ڈاکٹر مریض کواس ٹیسٹ کے لیے ”ریفر“ کرتا۔ سی ٹی سکین مشینیں ہٹاچی کی تھیں، ان کی آپریشنل اور مینٹی نینس کی ذمہ داری کے ساتھ عملہ بھی انہی کا تھا۔ یہ سہولت کسی ناغے اور وقفے کے بغیر روزانہ 24 گھنٹے دستیاب ہوتی۔ غریبوں کے لیے اس مفت سہولت پر حکومت پنجاب ( معاہدے کے مطابق) ہٹاچی کو ادائیگی کرتی۔ کیا غریبوں کے لئے یہ سہولت اب بھی اسی معیار اور رفتار کے ساتھ موجود ہے؟ جواب ظاہر ہے نہیں۔ جو کہ ایک بڑی بد قسمتی ہے۔

یہاں قصور کی زہرہ بی بی کا المیہ بھی یاد آیا۔ میں نے اخبار میں خبر پڑھی، ایک خاتون لاہور کے جناح ہسپتال میں فرش پر زیرِ علاج تھیں اور اس حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ یہ خبر ہر حساس دل کو تڑپا دینے والی تھی۔ میں مرحومہ کے لواحقین سے اظہار تعزیت اور دیگر تفصیلات جاننے کے لیے ان کے گھر گیا۔ تو معلوم ہوا کہ مقامی ہسپتال نے مریضہ کو لاہور کے کسی بڑے ہسپتال لے جانے کے لیے کہا جس کے لئے ایمبولینس کی تلاش ہوئی مگر نہ ملی، آخر دو ہزار روپے میں ایک گاڑی ملی اور لواحقین اسے لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔

یہاں شروع میں جنرل ہسپتال پڑتا تھا، انہوں نے مریضہ کو یہ کہہ کر ”سروسز“ بھجوا دیا کہ اس کا علاج ”سروسز“ میں ہوگا اور سروسز والوں نے ”جنا ح“ لے جانے کو کہا اور ہر مرتبہ ایمبولینس کے لیے پیسے دینے پڑتے۔ وہ جناح ہسپتال پہنچی تو وہاں کوئی بستر فارغ نہ تھا چنانچہ اسے فرش پر لٹا کر ڈاکٹروں نے بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ اسی دوران اس نے آخری سانس لی اور اگلے جہاں سدھارگئی۔ اس مریضہ کو انتہائی تکلیف کی حالت میں دربدر کے دھکے کھانے پڑے اور نہ جانے کتنے ہی لوگ اس نظام کا شکار ہوئے۔ اس غفلت اور لاپروائی پر میں نے متعلقہ لوگوں کی سخت سرزنش کی اور ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔

اس المیہ نے ایک اور سنگین مسئلے کی طرف بھی توجہ دلائی، موت و حیات کی کشمکش میں، مریضوں کی ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقلی کا مسئلہ۔ بنیادی طور پر یہ وہی ”دو پاکستان“ والامسئلہ تھا، امیروں کے لیے الگ پاکستان جہاں پرُآسائش زندگی گزارنے کے لئے ہر آسائش دستیاب، معمولی سا نزلہ زکام ہو تو اس کے لیے بھی بہترین طبی سہولتیں حاضر، اور غریبوں کے لئے الگ پاکستان، جہاں موت بھی ایڑیاں رگڑتے ہوئے آئے۔

پس یہی وہ لمحہ تھا جب بے وسیلہ مریضوں کی ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقلی کے لئے پیشنٹ ٹرانسفر سسٹم (پی ٹی ایس) کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس کے لئے محکمہ صحت کے پاس پہلے سے موجود ایمبولینسوں میں سے اچھی حالت میں 500 ایمبولینسزکا انتخاب کیا گیا ( باقی ماندہ کھٹارا ایمبولینسز باقاعدہ شفاف بولی کے ساتھ نیلام کر دی گئیں۔) ایمرجنسی سروس کے لیے 1122 پہلے سے موجود تھی، مریضوں کی منتقلی کا یہ نیا نظام بھی اسی کے سپرد کر دیا گیا۔

ہسپتال میں نمایاں جگہ پر اس کا کاؤنٹر ہوتا (ہسپتال کا عملہ بھی اس کے لیے رہنمائی کرتا۔ ) مریض کو منتقل کیے جانے والے ہسپتال کو بھی فوراً اس کی اطلاع کر دی جاتی تاکہ وہاں مریض کے پہنچنے تک ضروری انتظام کرلیا جائے۔ ایمبولینس پہنچتے ہی، ہسپتال کا عملہ مریض کو ”وصول“ کرنے کے لئے موجود ہوتا۔ اس سروس کے لیے ”لائیو ڈیش بورڈ“ بھی تھا جہاں لمحہ بہ لمحہ نشاندہی ہوتی رہتی کہ کون سی ایمبولینس کہاں ہے۔

یہاں 1122 میں ایک نئی سہولت کا ذکر بھی ہوجائے۔ شہروں میں بعض علاقے اتنے تنگ ہیں کہ ان کی گلیوں اور بازاروں میں ایمبولینس گاڑی داخل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ”موٹربائیک ایمبولینس“ کا اہتمام کیا گیا۔ برادر ملک ترکی میں یہ نظام موجود تھا۔ یہ آئیڈیا وہیں سے آیا۔ 1122 کے سٹاف نے ٹریننگ بھی وہیں سے لی جس کا کوئی معاوضہ ترک بھائیوں نے وصول نہ کیا۔ صرف سفری اخراجات تھے جو ہماری حکومت نے ادا کیے۔ ٹریننگ حاصل کرنے والوں میں خواتین (فیمیل نرسز ) بھی تھیں۔

ترکی سے تربیت یافتہ سٹاف نے واپس آکر باقی لوگوں کی ٹریننگ بھی کی۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر 900 موٹربائیکس خریدی گئیں جن پرفوری طبی امداد کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔ اور مریض یا (زخمی) کو محفوظ ہاتھوں میں ہسپتال پہنچادیا جاتا۔ یہ نظام پنجاب کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز تک پھیلا دیا گیا۔ وقت ملتا تو اسے ڈسٹرکٹ کی سطح پر بھی لے جاتے۔

اگرچہ گزشتہ تیس پینتیس سال میں ہمارے دیہات میں بھی زندگی بدل گئی ہے۔ اکثر و بیشتر دیہات میں بجلی اور سڑک پہنچ چکی لیکن ضروری طبی سہولتوں کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حمل اور ولادت کے دوران زچہ و بچہ کو درپیش مسائل بھی ان میں شامل تھے جوبروقت توجہ نہ دینے کے باعث زچہ و بچہ کی اموات کا باعث بھی بن جاتے۔ کچھ ناخواندگی اور عدم شعور اورکچھ طبی سہولتوں کا فقدان تھاجس کے باعث حاملہ خواتین معمول کے معائنے کی طرف توجہ نہیں دیتیں۔

بنیادی مراکز صحت میں پرانی نسل کی ”دائی“ ہوتی، جس کے ہاتھوں عموماً معاملہ بگڑ جاتا۔ ایک سروے کے مطابق پنجاب میں نومولود بچوں کی شرح اموات فی ہزار 63، بھارتی پنجاب میں 28 اور سری لنکا میں صرف 5 تھی۔ جبکہ زچہ عورتوں میں شرح اموات پاکستانی پنجاب میں، ایک لاکھ میں 189، بھارتی پنجاب میں 155 اور سری لنکا میں صرف 35 تھیں۔

پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہماری حکومت نے اس کے لئے ”پورٹیبل الٹراساؤنڈ“ کا اہتمام کیا۔ یہ بیٹری سے چلنے والا خاص نوعیت کا الٹراساؤنڈ سسٹم ہے جو بجلی سے محروم علاقوں میں بھی کام کرتا ہے اور پیچیدہ و فوری اہمیت کے حامل کیس بلیوٹوتھ کے ذریعے سپیشلسٹ کو بھی بھجوائے جاسکتے ہیں۔ الٹرساؤنڈ مشینوں کی فراہمی کے لیے باقاعدہ ٹینڈرنگ ہوئی اور جنرل الیکٹرک نے یہ بولی جیت لی۔ اسی نے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کی ٹریننگ کا انتظام کیا۔ اس سے پہلے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے پروفیشنلز میں بہت بڑی تعداد مردوں کی تھی۔ 700 بنیادی مراکز صحت اور 300 رورل ہیلتھ سنٹرز کو یہ سہولت باہم پہنچائی گئی ہر رورل ہیلتھ سنٹر میں ایک ڈاکٹر اور چار تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا۔

لیڈی ہیلتھ وزیٹرز حاملہ خاتون کا ہر ماہ معائنہ کرتیں ( اگر کوئی مسئلہ ہوتا تو اس کا علاج کیا جاتا) ان خواتین کے معائنے کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا۔ وضع حمل (ڈیلیوری) کا وقت جوں جوں قریب آتا، لیڈی ہیلتھ وزیٹرزیادہ متوجہ (الرٹ) ہو جاتی۔ لیڈی ہیلتھ ویزیٹر کو بھی ”متوقع“ دن کا اندازہ ہوتا، جبکہ گھر والوں کوبھی یوفون ہیلپ لائن کی سہولت دستیاب ہوتی کہ ضرورت پڑنے پر ایمبولینس بلوا سکیں۔ اور یوں خاتون کو، جس ہسپتال میں پہنچانا ہوتا بلاتاخیر اس کے مکمل الٹراساؤنڈ ریکارڈ کے ساتھ پہنچا دیا جاتا۔

اس نئے سسٹم میں بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز میں ولادت (ڈلیوری) کی ماہانہ تعداد 60 ہزار سے زائد ہوگئی۔ الحمدللہ اس سے دیہی علاقوں میں نہ صرف زچہ و بچہ کی شرح اموات میں خاطرخواہ کمی ہوئی بلکہ ماں اوربچے کی صحت پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ ان منصوبوں کی کامیابی میں اُس وقت کے سیکرٹری ہیلتھ علی جان کی بے پناہ دلچسپی اور محنت شامل تھی۔
( پنجاب میں طبی شعبے میں انقلاب کی کہانی جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).