کوئی ایسے فرشتے بھی ہیں جو ایسے مردوں پر لعنت بھیجیں؟


ڈاکٹر نے چیک کیا، اینٹی بایؤٹکس اور کھانسی کا شربت لکھا۔ پاس کے اسٹور سے دوایئاں خرید کر ٹیکسی لی اور گھر واپس آ گئے۔
دو دن میں بے سدھ پڑی رہی۔ ساس اب کچھ کچھ خالہ بن گئیں اور جی جان سے میری تیمارداری کی۔ جوس، سوپ اور چائے پلاتی رہیں۔ دوائیں بھی وقت پر دیں۔ عدنان کو سودا لانا پڑا۔ کھڑے کھڑے آتا۔ سودا رکھتا۔ میرا حال پوچھتا۔

” پہلے سے بہت بہتر ہے بس دو ایک دن میں بھلی چنگی ہو جائے گی“ میرے بجائے خالہ جواب دیتیں۔

تیسرے دن میری حالت سنبھلی، میں نے کمرے کے دروازے کو لاک کیا اور بیگ سے وہ بروشر نکالا۔ گھریلو تشدد کی شکار عورتوں کے لئے پیغام کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ انہیں مدد مل سکتی ہے۔ تشدد جسمانی بھی ہو سکتا ہے، نفسیاتی بھی اور جنسی بھی۔ جو بھی سلوک آپ کی مرضی کے بغیر آپ کے ساتھ ہو اور اس سے آپ کو تکلیف پہنچے وہ تشدد میں شمار ہوتا ہے۔ بروشر میں ہنگامی مرکز کا فون نمبر درج تھا۔ میری مدد ایک فون کال کی دوری پر تھی۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں ابھی بھی سسٹم سے پوری طرح واقف نہیں تھی۔ مجھے مناسب وقت اور موقعہ کا انتظار تھا۔ پانچویں دن میرا حال بہتر ہوا۔ اس دوران میں نے شاید ہزار بار وہ بروشر پڑھا اور اب مجھے اس کا ایک ایک حرف ازبر ہو چکا تھا۔

اس روز میں صبح جلدی اٹھ گئی کمرے سے باہر نکلی تو ساس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ”کافی بہتر لگ رہی ہو اب تو“ میں نے کچن کا رخ کیا۔ ناشتہ بنایا۔ برتن دھوئے اور کمرے میں آ گئی۔ میرے پیچھے ہی ساس بھی چلی آیں۔

” مسز خان کا فون آیا تھا۔ کسی دکان میں سیل لگی ہے۔ کہہ رہی تھیں کہ چندا کو بھی چلنا ہو تو ساتھ چلے“
میں نے حامی بھر لی۔ وقت اور موقعہ آگیا۔ اب مجھے صرف ہمت درکار ہے۔

میں نے تمام ضروری کاغذات بیگ میں ڈالے۔ پاسپورٹ، ڈگری، آئی ڈی کارڈ اور نکاح نامہ اور شادی کی چند تصاویر۔ جیولری تو سب ساس کی پاس رکھی تھی اس پر میں نے لعنت بھیجی۔ عدنان کے دیے ہوئے ڈالرز البتہ میں نے بیگ میں ڈال لئے۔ اور بروشر بھی۔

مسز خان نے نیچے سے ساس کو فون کیا وہ میری منتظر ہیں۔ میں کمرے سے نکلی۔ ساس ٹی وی پر اپنی پسندیدہ مبلغہ کا وعظ دیکھ رہی تھیں۔ ”جو عورتوں اپنے شوہروں کے بلانے پر بستر پر نہ آئیں ان پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ “

میں تپ کر رہ گئی۔ جو مرد بیوی کو بلائیں ہی نہیں۔ ان کے حقوق ادا ہی نہ کریں کوئی ایسے فرشتے بھی ہیں جو ان مردوں پر لعنت بھیجیں؟
مارکیٹ پہنچ کر میرے قدم رک گئے۔ مسز خان نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔

میں نے بیگ سے پروشر نکال کر ان پکڑا دیا۔ انہوں نے ایک نظر اس پر ڈالی اور سب سمجھ گئیں۔

” اس نمبر پر فون کر دیں پلیز۔ میں اب اور برداشت نہیں کر سکتی۔ “
انہوں نے اپنے فون سے نمبر ملایا اور فون مجھے پکڑا دیا۔

دوسری طرف سے ایک مہربان سی آواز نے کہا ”آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں“
” میں تشدد کا شکار ہوں اور مجھے پناہ چاہیے۔ “ میری آواز رندھ گئی۔

” ٹیکسی لے کر فوری طور پر آجاؤ۔ “
وہاں سے ایڈریس بھی ایس ایم کر دیا گیا۔ مسز خان نے ٹیکسی بلائی۔

” آپ کو مشکل میں ڈال رہی ہوں۔ وہ آپ سے پوچھیں گے۔ “
” میری فکر مت کرو میں سنبھال لوں گی۔ تم جاؤ۔ “
ہنگامی مرکز میں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

آگے کی کہانی مختصر کرتی ہوں۔ تازہ ترین یہ ہے کہ میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہی ہوں ایک اور لڑکی کے ساتھ شیئر کر کے۔ مجھے وکیل بھی ملا ہے جس نے ورک پرمنٹ دلانے میں مدد کی۔ چند جگہ کام کی درخواستیں دیں۔ ایک جگہ سے انٹریو کال آئی اور کام مل گیا۔ ایک بڑے اسٹور کے سیلز کے شعبہ میں۔ ٹرینینگ چل رہی ہے۔ عدنان پر پولیس کیس بن چکا ہے۔ فراڈ، دھوکا دہی اور میرے انسانی حقوق سلب کرنے کا۔ دوسری بیوی نے الگ کیس کیا وہ بھی فراڈ اور پہلی شادی چھپانے کا۔ عدنان کے پہلے فون آتے رہے کہ کیس واپس کرو۔ پہلے غصے سے پھر منت سماجت سے اور پھر دھمکیوں کے۔ لیکن میں مضبوطی سے اپنی جگہ کھڑی ہوں۔

میرے مستقبل کے لئے اہداف یہ ہیں کہ مجھے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ اپنے فیصلے خود کرنے ہیں۔ میں وقت آنے پر شادی بھی کروں گی۔ اپنا گھر بساؤں گی لیکن اپنی مرضی سے۔

بیٹیوں کے والدین سے میری التجا ہے کہ بیٹیوں کو ایسی تعلیم دلائیں جس سے وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکیں۔ انہیں ایسی تربیت دیں جو انہیں خودار، مضبوط اور معاشی طور پرخودمختار بنائے۔ شادی کا فیصلہ بھی انہیں خود کرنے دیں۔ خاندان، ذات اور برادری سے باہر نکلیں۔ بیٹوں کے والدین سے یہی کہوں گی کہ بیٹوں کو مرد نہیں انسان بنائیں۔
آخر میں مذہبی وعظ کرنے والوں سے گزارش کہ آپ عورت کی عزت دو کوڑی کی نہ کریں۔ وہ انسان ہے اور لائق تکریم ہے۔ اسے بھی سر اٹھا کر جینے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3