مفلوج ذہن لوگوں کا بچوں پر جنسی ظلم


بچے معاشرے کا مستقبل ہوا کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برس قبل 2017 میں قصور کی 6 سالہ زینب قتل کیس نے جس طرح پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ صرف اس کیس نے خیبر سے کراچی تک قوم اور میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ قصور شہر میں جتنے زیادتی کے کیس اس سال رجسٹر ہوے اس کی مثال نہیں ملتی۔ قصور شہر میں کم و بیش 700 سے زائد بچوں سے زیادتی کے کیس رجسٹر ہوے۔ پاکستان میں اگر بچوں سے زیادتی کی بات کی جائے تو قصور شہر میں سب سے زیادہ بچے زیادتی کا شکار ہوے۔

صرف اگر 2017 کی بات کی جائے تو بچوں سے زیادتی سے متعلق ملک میں 3445 کیس مختلف اخباروں میں رپورٹ ہوے اس کے برعکس 2018 کی بات کی جائے تو مختلف اخباروں میں 2018 کے دوران 3832 کیس رپورٹ ہوے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2018 میں 2017 کی نسبت 11 فیصد بچوں سے زیادتی کے معاملات میں اضافہ ہوا جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں ہر روز 10 بچوں سے زیادتی ہوئی۔ ہر سال اس کا بڑھتا ہوا رجحان باحیثیت قوم قابل شرم اور قابل فکر ہے۔

رپورٹ کے مطابق 3832 میں سے 55 فیصد بچیاں جبکہ 45 فیصد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوے۔ رپورٹ کو پڑھنے اور دیکھنے کے بعد یقیناً اولاد رکھنے والوں اور شریف و عزت دار انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اکثریتی لڑکے 6 سے 10 سال اور 11 سے 15 سال کے جنسی زیادتی کا شکار ہوے۔ اسی طرح 6 ماہ سے 5 سال تک کی بچیوں اور 16 سے 18 سال کے درمیان بچیوں سے زیادتی کی رپورٹس دیکھنے میں آتی ہیں۔

ہم نے سانحہ قصور سے نا کوئی سبق سیکھا اور ناہی حکمت عملی وضع کی۔ البتہ حالیہ دنوں میں چونیاں میں 3 بچوں سے زیادتی کی رپورٹ ہمارے سامنے ہے۔ ان بچوں میں علی حسنین ولد افضل عمر 9 سال، سلمان ولد محمد اکرم عمر 8 سال اور محمد عمران ولد محمد رمضان عمر 12 سال شامل تھے جو پہلے تو اغوا کیے گئے بعد ازاں زیادتی اور موت کا شکار ہوے۔ وہ سابقہ حکومت کے دوران وزیراعظم عمران خان صاحب کا زینب قتل کیس میں آواز بلند کرنا تھا یا پولیس اصلاحات کا دعوی، سوال یہ ہے کہ کیا وہ سیاسی نعرہ تھا؟ اگر سلسلہ نا تھما تو کل یہ مصیبت کسی اور کے در پر دستک دے گی اور پھر سے یہ سیاستدان و وزرا تصاویر بنوانے آپ کے گھر ہوں گے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہر سانحہ قصور و دیگر سانحات کے بعد فقط جے۔ آی۔ ٹی بنائی جائے گی اور انکوائری ہوگی؟ کیا ہر بچے کے گھر جا کر صرف سیاست چمکائی جائے گی؟ کیا ہمیشہ غریب کا بچہ ہی پسنے کے لیے ہے؟ اگر عدالتی نظام کو دیکھا جائے تو اس قدر سست ہے کہ کسی کا پوتا انصاف کے لیے کسی کیس کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ پولیس کے نظام کی بات کی جائے تو ایف۔ آئی۔ آر سے لے کر انویسٹیگیشن تک سب امیر اور وڈیرے کے گھر کی لونڈی ہے۔ یہاں ظالم ہی مظلوم بن جاتا ہے اور بے چارہ مظلوم، ظالم بن کر ابھر جاتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سانحہ ساہیوال تک پولیس کا رویہ ہمارے سامنے ہے۔

اسی طرح حکومت کی بات کی جائے تو جے۔ آئی۔ ٹی اور اظہار افسوس و مذمت سے بڑھ کر مجھے پچھلی دو دہائیوں میں کچھ نظر نہیں آیا۔ سیاستدان اور پارلیمنٹیرین صرف اظہار مذمت اور افسوس کی فیکٹریاں بن کر رہ گئیں۔ اگر قوم کی بات کروں تو جب تک کسی کے اپنے کے ساتھ کچھ واقعہ نا ہو ہم بیدار نہیں ہوتے اور نا چیختے ہیں۔

زینب قتل کیس میں مجرم عمران کو پھانسی دینے کے بعد کیا بچوں سے زیادتی کی رپورٹس کم ہویں؟ تو جواب آے گا 11 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ ہمیں اس بڑھتے ہوے رجحان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اس کے لیے ہر طبقہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف چائلڈ پروٹیکشن بنا دینے سے کام نہیں ہوگا۔ اس کے لیے سخت قوانین بنانے ہوں گے۔ ایسے مجرمان کو سر عام پھانسی دینی ہوگی تاکہ لوگ عبرت لے سکیں۔ اسی طرح پولیس کے نظام کو سرے سے بدلنا ہوگا اور احتساب کا نظام پولیس کے محکمے میں لانا ہوگا۔

عدالتی نظام کو تیز کرنے کے لیے مزید کورٹس، ججز اور قوانین کو بدل کر جلد انصاف فراہم کرنے کا دروازہ کھولنا ہوگا۔ والدین اور اساتذہ ہوں یا امام مسجد سے لے کر میڈیا تک ہر کسی کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ بچوں کو شعور دینا ہوگا اور چند نصیحتیں کرنی ہوں گیں۔ خاص طور پر والدین کو بچوں کی دیکھ بھال اور ان پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔

ایک بنیادی وجہ اگر دیکھی جائے تو وہ دینی علم ہے یا سائنسی علم ہے یا پھر شعور ہر چیز کی عوام میں کمی ہے۔ نفسیاتی سطح پر بیمار افراد کی پیداوار در حقیقت اس مسئلہ کی جڑ ہے۔ نوجوان طبقہ میں سزا و جزا کے خوف نا ہونے کی وجہ سے اس کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔ جب معاشرہ میں عام ہوگا کہ یہاں سزا نہیں ہوگی تو پھر ہر فرد جرم کو تسلیم کرے گا اور جرم کی جانب راغب ہوگا۔ حکومت وقت کو اس طرف توجہ دینی ہوگی اور پنجاب میں حقیقی اور مثبت تبدیلی لانی ہوگی۔

سمجھ سے بالا ہے کہ وزیراعظم عمران خان صاحب کو عثمان بزدار صاحب میں وسیم اکرم پلس کہاں سے نظر آگیا؟ پنجاب کی صورت حال کو ہی دیکھا جائے تو اگر یہی حالات رہے تو اگلی حکومت پی۔ ٹی۔ آئی کے بجائے کسی اور جماعت کی ہوگی۔ ملک میں ڈینگی کا وار عام ہے۔ راولپنڈی، لاہور، پشاور میں کیسز ریکارڈ ہورہے ہیں۔ کم و بیش 20 ہزار افراد ڈینگی کا شکار ہیں۔ عوام بیماری میں مبتلا ہے اور وزیراعلیٰ صاحب سی۔ ایم ہاؤس میں قیام پذیر ہیں۔

شہباز شریف صاحب کے متحرک ہونے سے انتظامیہ ضرور حرکت میں آجایا کرتی تھی۔ حکومت وقت کو عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا اور ہر مثبت قدم کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹ سے متعلق قوم کو آگاہ کرنا ہوگا ورنہ موجودہ حکمرانوں کا حال سابق حکمرانوں سے بدتر ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیمار سوچ ذہنیت کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).