انسان کب باز آتا ہے


انسان کا رویہ، عمل اور ردعمل ایک معمہ ہے۔ روز نت نئے واقعات دل دہلاتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں رہ جاتے ہیں کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی اتنا ظالم کیسے ہوسکتا ہے مگر ظلم نت نئی شکلوں میں اظہار کرتا ہے کیونکہ انسان کب باز آتا ہے۔ تاریخ کے فرعونی کرداروں کا منطقی انجام اور بھیانک خاتمہ دیکھ اور جان کر بھی اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا خیال دل میں نہیں لاتا۔ مزاج کو حلیمی کی لے سے ہم آہنگ کرتا ہے نہ لہجے میں نرمی اور مسکان کی شیرینی ملاتا ہے۔

یوں معاملات کی جو تلخی اچھے رویے سے سنواری جا سکتی ہے وہ تو مزید بگاڑ کا سبب بنتی ہی ہے بعض اوقات عام سی بات کو بھی لہجے کا تکبر اتنا ناپسندیدہ بنا دیتا ہے کہ سننے والے کے لئے گوارا کرنا بلکہ نظر انداز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو خاص طور پر طاقت سے خاص رغبت ہے۔ طاقت ور ہونا الگ بات ہے اور اس کا نامناسب اظہار الگ۔ عہدے اور مرتبے اگر فرض اور خدمت خلق سے جڑے ہوں تو انسانیت کے وسیع تر مفاد سے جڑ کر خیر کی علامت اور معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔

آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا کو بے شمار معجزاتی اور کرشماتی ایجادات سے نوازا ہے مگر آج بھی سب سے بڑی تجارت اشیائے خوردو نوش، ادویات یا آسائشات پر مبنی نہیں بلکہ انسان کو کرئہ ارض سے نیست و نابود کرنے اور زمین کو بانجھ بنانے والے اسلحہ جات ہیں۔ ایٹم، ہائیڈروجن، پتہ نہیں کتنے جتن کر کے کون کون سا سامان اکٹھا کیا جاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ وہ خود نہیں تو اس کے بچے اس کی زد میں آسکتے ہیں مگر ترقی پذیر ملکوں کو یرغمال بنانے اور اپنی دھاک بٹھانے کے لئے طاقت کے نشے میں سرشار غلطیوں پر غلطیاں دہرائے جاتا ہے۔

اخلاقی قدریں ازبر ہیں مگر خمار میں پیروں تلے کچلی جاتی ہیں۔ دل دکھانا اور عزت نفس پامال کرنا غلطی نہیں جرم ہوتا ہے کیونکہ یہ احساس اور وقار کا قتل ہے۔ یوں ہمارے چھوٹے چھوٹے غلط رویوں کا ردعمل جمع ہوتا رہتا ہے اور پھر کسی وقت یہ سب مل کر ایسے طوفان کا روپ دھارتی ہیں جہاں بچاؤ کا امکان ہی نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے انسان غلطیوں کا پتلا ہے مگر غلطی اصلاح کی طرف رخ کر لے تو بات سنبھل جاتی ہے۔ جس طرح روز گھر کے فرش اور درودیوار کی جھاڑ پونچھ کی جاتی ہے ذات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ باہر کی چمک دھمک کے ساتھ ساتھ باطن میں لگے جالے اتارنے اور دُھول مٹی پر جھاڑو پھیر کر ڈھیر بننے سے روکا جا سکتا ہے۔ معافی وہ بارش ہے جو سب غلاظت بہا کر لے جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ وقت گزرنے کا احساس انسان کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو۔ یہ احساس مر جائے تو ضمیر کی لعن طعن بھی کام نہیں کرتی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیا، اولیاء اور خوفِ خدا رکھنے والوں کے علاوہ ہر انسان میں ایک چھوٹا سا فرعونی پیکر ضرور سمایا ہوتا ہے جو وقت پڑنے پر اپنا اظہار کرتا اور وحشت پھیلاتا ہے۔ سارا فساد، ساری لڑائی اور رسہ کشی اسی فرعونی فکر کے باعث ہے۔ ہمارے صوفیاءنے نفی ذات کو تصوف کا آغاز کہا کیونکہ جب تک انسان اپنے اوپر اختیار حاصل نہیں کرلیتا، اپنے غم و غصے، تکبر، حسد اور دیگر نفسانی برائیوں کو پسپا نہیں کرتا اور اپنے عمل کو سوچ کے تابع نہیں کرتا وہ کسی اور کے لیے مفید ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی ذات کو بلندیوں کی طرف سفر جاری رکھنے کا حامل بنا سکتا ہے۔

آقا اور غلام کا تصور ہر سطح پر موجود ہے۔ دنیا کے طاقتور ملکوں سے ہوتے ہوئے اپنے دیس کی طرف نگاہ کریں تو یہاں ہمیں ظاہری رویوں میں تلخی اور تعصب کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں لوکائی مختلف درجوں میں تقسیم ہے۔ یہ تقسیم اگرچہ صوبوں کے اندر بھی موجود ہے مگر صوبائی اکائیوں کے درمیان زیادہ مخاصمت نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر وقت ایک میدان جنگ کا ماحول پیش کر رہا ہوتا ہے۔ بے بنیاد اور غیر منطقی مواد کے ذریعے نفرت انگیز ماحول کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس میں ایک صوبے کا فرد دوسرے سے شکوہ کناں ہے۔

وہ لوگ جو عملی کام سے کم رغبت رکھتے ہیں انھوں نے تنقید کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ سماجی رابطے کی دیوراریں ان کی دشنام طرازی سے لرزتی رہتی ہیں مگر کوئی ان کا ہاتھ نہیں پکڑتا۔ قانون موجود ہے مگر طریقہ کار اتنا طویل کہ شکایت کرنے والے فکرمند۔ پھر زندگی کی دوڑ میں صاحب شعور اپنے کام سے کام رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ جنہیں بولنا چاہیے ان کی خاموشی اور لاتعلقی کے باعث کم علم اور متعصب لوگوں نے معاشرے کی اصلاح کا نظام سنبھال رکھا ہے، جن کے نزدیک نیکی کرنے سے زیادہ برائی کی تشہیر کرنا اہم ہے۔

سرکاری ملازموں، سیاستدانوں اور دیگر محکموں کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ عین فرض سمجھ کر اپنا وطیرہ بنا لیا گیا ہے جس سے دن بدن مایوسی اور بے بسی کی فضا مستحکم ہورہی ہے۔ خود پر، قانون پر، ریاست پر اور اداروں پر یقین ڈگمگانے لگا ہے۔ کچھ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے، جس سے بات کریں وہ گلہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس کام کے بارے میں جس کے حوالے سے اس کو کوئی معلومات نہیں حالانکہ اُن منفیت پھیلانے والوں کی زندگی ان کے آباؤ ¿ اجداد سے کہیں زیادہ بہتر اور آرام دہ ہوتی ہے۔

پھر ہر وقت گلہ کرنے والے کسی لمحے یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے کہ عمل کے ذریعے اپنا حصہ ڈال کر معاشرتی اصلاح بھی کریں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر فرد نے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہے معاشرے کی ٹھیکیداری نہیں کرنی۔ قبل مسیح یونانی فلسفیوں نے یہ حقیقت بتا دی تھی کہ ہر انسان برابر نہیں ہوتا خدا کی طرف سے کچھ لوگوں کو مخصوص صلاحیتیں ودیعت کی جاتی ہیں۔ ہر فرد فیصلہ سازی اور چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

یہی صورت فنون، ادب اور دیگر شعبوں کی ہے۔ ہر فرد کا جسم ویسا ہی عمل کرتا ہے جس کی کمانڈ اُس کا ذہن اُسے دیتا ہے۔ اِس لیے بہت طاقتور جسم والے لوگ بھی بزدل اور کم حوصلہ ہوسکتے ہیں جبکہ بظاہر کمزور نظر آنے والے لوگوں کا حوصلہ بہت پختہ ہوتا ہے اور وہ بڑے بڑے فیصلے لینے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے عملی کردار کا فیصلہ والدین نے اپنے سپرد لیے رکھا۔

وہ بچہ جسے طب سے کوئی دلچسپی نہیں ہم اُسے ہر حال میں ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں اور وہ بچہ جو ریت کا گھروندا بنانے سے ہچکچاتا ہے اُسے انجینئر بنا کر عمارتوں کی تعمیر پر لگا دیتے ہیں۔ جب آپ کسی فرد کو ایسے فرائض تفویض کریں جو اُس کی دلچسپی اور رجحان کے مطابق ہوں تو نتیجہ سو فیصد مثبت آتا ہے کیونکہ وہ فرد اپنے کام کو بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ ایک خوشگوار عمل سمجھ کر سرانجام دیتا ہے۔ یہاں وہ مقررہ وقت کی پرواہ بھی نہیں کرتا کیونکہ اُس کے لیے کام کی انجام دہی اطمینان قلب کی مانند ہوتی ہے اور وہ ہر حال میں تکمیل کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

ادب اور کلچر وہ پلیٹ فارم ہیں جس کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں 72 سالوں سے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کا کوئی عمل شروع نہیں کیا گیا۔ لوگ ایک دوسرے صوبے میں ملازمت کے لیے جاتے ہیں لیکن آپس میں یگانگت کا ماحول پیدا نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کا لوگوں سے رابطہ ہی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے دن بدن خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانا ہے تو صوبائی چپقلشوں کو کم کر کے ہم آہنگی کی فضا کو ترویج دینا ہوگا۔

لوگ دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں مگر دیگر صوبوں میں ہونے والے میلے ٹھیلوں میں شرکت نہیں کرتے۔ ضروری ہے کہ قومی سطح کے ثقافتی اور ادبی ادارے وفود کے تبادلوں کے ساتھ ساتھ کسی بھی جگہ ہونے والے علاقائی میلوں میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی شرکت کو یقینی بنائیں۔ اپنائیت کی طرف سفر شروع ہو۔ بہرحال ابھی تک سائنس اِس بات کا کھوج نہیں لگا سکی کہ وقت سے پہلے واقعات کے بارے میں انسانی ذہن کو کس طرح علم ہو جاتا ہے اور وہ معلومات خواب کی صورت ہم تک کسی طرح پہنچتی ہیں جن کو وقوع پذیر ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہوتا ہے۔

یقینا تقدیر اسی کا نام ہے کچھ چیزیں لکھی ہوئی ہیں اور وہ ہمارے وجود کے عناصر سے تال میل رکھتی ہیں اِس لیے دوسروں کے رستے میں کانٹے بچھانے کی بجائے اپنے لیے کوشش کرنی چاہیے اور صالح عمل کی توفیق طلب کرنی چاہیے۔ یہ بھی ایک نعمت ہے اگر حاصل ہو جائے تو ورنہ احساس جرم تو کسی نہ کسی وقت انسان پر حملہ آور ہو کر رہتا ہے۔ وارث شاہ جنھیں دنیا سخن کا وارث کہتی ہے نے ہیر کے رومانوی قصے میں آفاقی حقیقتیں اور اخلاقی قدریں بیان کر کے افراد کو انسان بننے کا گر سِکھایا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں اَکڑ کر چلنے والا آخر بے توقیر ہو کر رخصت ہوتا ہے۔ عزت صرف اُسی کی ہوتی ہے جو دلوں کو جیتنے کا جتن کرتا ہے۔ زمین، مال اور وارثوں پر مان کرنے والے بے وارث کر دیے جاتے ہیں اِس لئے اُس حاکم سے ڈرنا چاہیے جو قہار بھی ہے اور جبار بھی۔ محبت کرنے والوں کے لئے وہ ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے اور اِس کے برعکس چلنے والوں کو عبرت کی علامت بنا دیتا ہے۔

وارث مان نہ کر وارثاں دا، رب بے وارث کر ماردا ای


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).