کلپنا اور دھرم کی دیمک


کئی مہینے بعد میں نے کلاس میں جانا شروع کیا۔ پہلا سال کافی مشکل تھا۔ یہاں خود کام کرنا پڑتا تھا۔ کبھی اسائنمنٹ تو کبھی پریزینٹیشن، مجھے کام کرنے کی عادت نہ تھی۔ میرے آدھے کام تو عائشہ کر دیا کرتی تھی، دوسرے میں جو دوائی کھا رہا تھا، اس سے مجھ پر غنودگی طاری رہتی تھی۔

 آہستہ آہستہ دوا کی مقدار کم ہورہی تھی اور میں زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا۔ پہلے سال کا رزلٹ اچھا نہیں تھا۔ بہت برے گریڈ آئے تھے، بمشکل پاس ہوا تھا۔ میں اداس بیٹھا ہوا تھا۔ عائشہ ہوتی تو میرے گریڈ اتنے برے ہو ہی نہیں سکتے تھے۔  مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ خوشبو دینے والے پھول اتنی جلدی مرجھا کیوں جاتے ہیں۔  اس دن یونیورسٹی کے مرکزی کیفے میں کچھ کھانے آیا تھا اور بھول گیا تھا کہ یہاں کیوں آیا ہوں۔  میں اکیلا خاموش بیٹھا تھا۔

 مجھے نہیں پتہ وہ کب آکر میرے سامنے بیٹھ گئی تھی۔ اس نے کافی کا مگ میرے سامنے کیا تو مجھے احساس ہوا۔ میں نے تو کافی کا آرڈر نہیں کیا ”۔ میری طرف سے پی لو“ اس نے آہستگی سے کہا۔ اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔ کافی پیتے پیتے میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے۔  وہ اٹھی اور میری کرسی کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔ وہ میرے آنسو پونچھ رہی تھی۔ اس نے میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی۔ میری تھوڈی اٹھا کر میرا ماتھا چوما۔

 کتنی ہی دیر میرے گال تھپتھپاتی رہی، حتیٰ کہ میرے آنسو خشک ہو گئے۔  کلپنا سے میری پہلی ملاقات ہی اسے میری روح میں بسا گئی۔ وہ کشمیری برہمن تھی۔ سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے آئی تھی۔ اس نے ویک اینڈ پر مجھے کھا۔ نے پر بلایا، اپنے ہاتھ سے پراٹھا اور تڑکے والی دال بنائی۔ پھر ہر ویک اینڈ پر اس کے ہاتھ کا پراٹھا کھانا گویا میری زندگی کا مقصد بن گیا۔ وہ مجھے ہر سبجکٹ میں ٹیوشن دیتی۔ میرے گریڈ اچھے ہوتے گئے، دوائی کی مقدار کم ہوتی گئی حتٰی کہ دوائی چھوٹ گئی۔

 کلپنا کو میری کہانی پوری طرح سمجھ آگئی تھی۔ اس کے عقیدے کے مطابق میرے لئے وہ عائشہ کا دوسرا جنم تھی یوں دوسال گزر گئے۔  میں نے اس کے ساتھ سارا لندن گھوما، دریائے ٹیمز کے کنارے شامیں گزاریں، مادام تساؤ کے مومی مجسمے دیکھے، بذریعہ فیری فرانس گئے اور ایفل ٹاور دیکھا۔ زندگی کے سارے رنگ کلپنا کے سنگ لوٹ آئے تھے۔  میری زندگی کا پودہ ہرا بھرا ہو گیا تھا۔ کلپنا نے میری زندگی کے مر جھائے پودے کو پانی دیا تھا، میرے دل کے جھاڑ جھنکار کی گوڈی کر کے صفائی کر دی تھی، یوں دل کا چمن میں پھر سے بہار اتری تھی، اور وہ پھولوں سے بھر گیا تھا۔

 پھر یوں ہوا کہ ہمارے بیچ جتندر حائل ہو گیا۔ وہ کلپنا کا منگیتر تھا، اس کا بھی سکالرشپ لگ گیا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ مجھ سے ناراض ناراض سا رہتا، جس کی وجہ مجھے سمجھ نہ آتی تھی۔ شاید وہ مجھے مسلمان سمجھ کر کلپنا کو مجھ سے ملنے سے منع کرتا تھا، یا کوئی اور وجہ تھی۔ وہ دونوں اکٹھے رہتے تھے، اس لئے ویک اینڈ پر کلپنا کے گھر جانا اب مشکل ہو گیا تھا۔ کئی ہفتے میں کلپنا کے ہاتھ کا پراٹھا نہیں کھا سکا۔ کبھی کبھی ہم پھوپھو کے گھر چلے جاتے، جہاں ہم سارا دن کیرم کھیل کر گزارتے۔

میری زندگی کی روانی میں رکاوٹ آگئی تھی اور مجھے نیند بھی کم آنے لگی تھی۔ ایک دن میرا جتندر کے ساتھ یونیورسٹی میں ٹاکرا ہو گیا۔ کلپنا اس کے ساتھ تھی۔ کلپنا نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تھا مگر جتندر نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں رات کا جاگا ہوا تھا، دوا کھانا بھول گیا تھا، اس لئے  ہائپر ہو گیا۔ میں نے اسے گھٹیا، انتہا پسند ہندو کہ ڈالا۔ ہمارے درمیاں سخت جملوں کا تبادلہ ہورہا تھا جب کلپنا نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔  میں خاموش ہو گیا۔ وہ دونوں چلے گئے۔  میرے اور کلپنا کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے۔

کلپنا کو دیمک لگ گئی تھی۔ مالی کہتا تھا جس پودے کی جڑ کو دیمک لگ جائے وہ ہرا نہیں ہوسکتا۔ کلپنا کو جتندر کی صورت دھرم کی دیمک لگ چکی تھی۔ یہ دیمک اس کے خون کے ذروں کو سفید کرتی جارہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ بلکل مرجھا جاتی، دھرم کی دیمک اس کی جڑوں تک جا پہنچتی، میں نے اس سے قطع تعلق کر لیا۔ میں نے ماہر نفسیات کے پاس دوبارہ جانا شروع کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2