دکھاوے کے لیے رکھی چیزیں


وائے تقدیر! کسی دوست کے کام کے سلسلے میں ایک بہت بڑے نجی ادارے کے جدید ترین وسیع و عریض دفتر میں جانا ہوا۔ دفتر کے باہر خاصے کشادہ پارکنگ ایریا کے داخلے پر جلی حروف میں درج تھا “صرف دفتری سٹاف کے لیے”۔ آدھی پارکنگ خالی پڑی ہوئی تھی لیکن سائلین اور وہ لوگ  جن کے لیے اور جن کی وجہ سے ایسے دفاتر قائم ہیں ان کو گاڑیاں اندر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ پانچ دس منٹ اِدھر اُدھر کی سڑکوں پر گھوم کر ایک جگہ گاڑی کھڑی کرنے کا موقع مل گیا۔ دفتر کے کمپاؤنڈ کے داخلی بیریر پر چار پانچ گارڈ کھڑے تھے لیکن وہ بس کھڑے تھے کیونکہ گاڑیاں تو اندر لے جانے کی اجازت نہیں تھی اور عملے کی گاڑیاں بغیر کسی روک ٹوک اور چیکنگ کے آ جا رہی تھیں۔ دفتر کی عمارت میں داخلے سے پہلے مشینی اور دستی جامہ تلاشی کے ہر دو مراحل سے گزرنا پڑا۔ یہاں بھی تین گارڈ کھڑے تھے۔ عمارت میں داخلے کا صدر دروازہ خود کار تھا۔ پاس پہنچتے ہی “کھل جا سم سم” کہے یا ہاتھ لگائے بغیر کھل گیا اور اندر داخل ہونے کے بعد خود ہی بند ہو گیا لیکن یہاں بھی دائیں بائیں دو گارڈ کھڑے تھے جن کی موجودگی کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ اندر داخل ہوئے تو ایک لمبے چوڑے استقبالی ہال میں تین کاؤنٹر نظر آئے۔ سوچا معلوماتی کاؤنٹر دروازے سے قریب ترین والا ہو گا۔ اس کاؤنٹر پہ دبیز میک اپ کی تہہ جمائے تیز سرخ لپ اسٹک لگائے ایک روبوٹ نما خاتون موجود تھیں بظاہر مستعد مگر درحقیقت لاتعلق سی۔ مدعا بیان کرنے پر بغیر کسی تاثر کے بولیں اگلے کاؤنٹر پہ تشریف لے جائیں۔ اگلے کاؤنٹر پہ بھی لگ بھگ ایسی ہی خاتون تشریف فرما تھیں۔ انہوں نے بات سنے بغیر تیسرے یعنی آخری کاؤنٹر کی طرف اشارہ کر دیا۔ تیسرے کاؤنٹر پہ براجمان خاتون خوامخواہ کچھ بروشرز الٹ پلٹ رہی تھیں۔ مدعا سن کر کسی تؤقف کے بغیر ایک شانِ بے نیازی سے گویا ہوئیں اوپر چلے جائیں۔ پوچھا اوپر تو چہار اطراف ہے کس طرف اوپر؟ بغیر نظریں ملائے بولیں دائیں طرف۔ دائیں طرف مڑے تو سامنے پھر ایک استقبالی کمرہ تھا۔ وہاں بھی کاؤنٹر کے پیچھے ایک خاتون موجود تھیں، بظاہر مصروف لیکن اصل میں کچھ بھی نہیں کر رہی تھیں۔ ہم نے اسے تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا اور سامنے نظر آنے والی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچ گئے۔ شومیِ بخت کہ اوپر پہنچتے ہی سامنے پھر ایک کاؤنٹر بمعہ ایک نسوانی روبوٹ کے ہمارا منتظر تھا۔ ان کو اپنے کام کی نوعیت بتائی تو انھوں نے بھی سامنے ایک بڑے سے دروازے کی جانب اشارہ کر دیا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی ایک بڑے ہال نما دفتر کے شروع میں پھر ایک کاؤنٹر ہمارا منتظر تھا۔ خیر دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے کہ اللہ کرے یہ آخری کاؤنٹر ہو وجہِ آمد بیان کی۔ خاتونِ بے مہر نے سامنے ایک کیبن کی طرف اشارہ کر دیا۔

کلمہ ء شکر ادا کیا کہ استقبالی کاؤنٹرز سے تو جان چھوٹی اور مسکراتے ہوئے کیبن میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر مسکراہٹ غائب ہو گئی کہ کیبن والے صاحب سیٹ پر موجود نہیں تھے یا موجود تھے تو ہمیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایک بار پھر مجبوراً “استقبالیہ پری” سے رجوع کیا، کمال نامہربانی سے لب ہلے “انتظار فرمائیے”۔ ہم ایک جانب بچھے صوفوں پر انتظار فرمانے بیٹھ گئے۔ اس دوران ہال کا جائزہ لیا تو بیسیوں کیبن نظر آئے، ہر کیبن میں کمپیوٹر کی اسکرینوں کی طرف نظریں جمائے انسانی روبوٹ بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ مشینی انسان ایک کیبن سے دوسرے کیبن آ جا رہے تھے، کچھ موبائل فونوں پر محوِ کلام تھے اور کچھ آپس میں گفت و شنید کر رہے تھے لیکن وہ سب کیا کر رہے تھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ جب ہم سارے دفتر کا جائزہ لے چکے اور انتظار کا دورانیہ ختم نہ ہوا تو ایک بار پھر کاؤنٹر کی حسینہ سے التجا کی۔ اس بار انہوں نے ایک اور کیبن کی جانب اشارہ کر دیا۔ اب ہم اشاروں کو سمجھنے اور ان پر چلنے کے عادی ہو چکے تھے۔ فوراً اشارہ کردہ کیبن تک پہنچ گئے۔ یہاں نسبتاً ایک مناسب میک اپ اور قدرے خندہ رُو خاتون موبائل فون پر خاصی رومانی گفتگو میں محو تھیں۔ ہمارے مخل ہونے پر بے دلی سے گفتگو روکی اور استہزائیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔ ہم نے اپنا مقصد بیان کیا۔ سن کر زبردستی مسکرائیں اور اسی پہلے والے کیبن کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ ہم نے بتایا کہ اس کیبن والے صاحب موجود نہیں اور ہمیں کافی انتظار کے بعد آپ کے پاس بھیجا گیا ہے ہم اپنی خوشی سے نہیں آئے۔ مزید مسکراتے ہوئے ہمیں مزید انتظار کا مشورہ دے کر وہ پھر سے محوِ موبائل ہو گئیں۔ ہم ایک بار پھر حالتِ انتظار میں چلے گئے۔

آدھ گھنٹہ کی تاک جھانک اور نیم غنودگی کی کیفیت کے بعد متعلقہ کیبن میں تھوڑی ہلچل نظر آئی تو ہم فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور کیبن میں پہنچ گئے۔ دیکھا تو ایک خوش پوش نوجوان بیک وقت کمپیوٹر، فائلوں اور موبائل فون کے ساتھ مصروفِ کار تھے۔ ہم نے بغیر کسی سلام دعا اور تمہید کے کام بتایا۔ انہوں نے بھی کچھ مزید پوچھے بغیر دراز سے ایک فارم نکالا اور ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے تیز گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے پُر کر کے کسی اور جگہ ایک دفتر کا بتایا کہ وہاں سے تصدیق کروا کر پھر واپس یہاں آ کر جمع کروا دیجیے۔ یہ سن کر ہماری جو حالت ہوئی اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ آدھا دن گزر چکا تھا۔ اب ہم میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ ایک معمولی کام کے لیے دوسرے دفتر جا کر ان گنت کاؤنٹروں اور کیبنوں سے گزر پاتے۔ چنانچہ کام اگلے دن پہ موقوف کیا اور گھر واپس آ گئے۔

یہ ایک نجی دفتر کی کارکردگی کا خود پہ بھگتا ہوا حال ہے جس کے ون ونڈو اپریشن کا شہرہ ہے اور جو تشہیری مہم پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کرتا ہے۔ اگر یہی کام حقیقی معنوں میں کسی ترقی یافتہ ملک کے جدید دفتر میں ہوتا تو یقین کیجیے پہلے ہی کاؤنٹر سے آپ کو مکمل معلومات اور رہنمائی مل جاتی اور چند منٹوں میں ایک ہی جگہ پہ ساری کارروائی مکمل ہو جاتی۔ ہر مرحلے پہ اتنے استقبالی کاؤنٹر، اتنا عملہ لیکن کام کوئی بھی نہیں کرتا۔ ایک آدمی کی جگہ دس لیکن ہر کام کا طریقہ کار جہالت کی حد تک پیچیدہ اور طویل و تکلیف دہ اور ماحول بادی النظر خوشگوار مگر درحقیقت اتنا مصنوعی اور غیر ضروری کہ آدمی اکتا جاتا ہے اور وقت کا زیاں الگ۔ آپ سوچیں کہ سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر کا کیا حال ہو گا۔ کرپشن صرف روپے پیسے کی نہیں ہوتی۔ سست روی سے کام کرنا یا کام نہ کرنا اور اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا بھی کرپشن اور بد دیانتی کے زمرہ میں آتا ہے۔ محض جدید عمارتیں بنا لینے، خود کار اور کمپیوٹرائزڈ نظام کی تشہیر کرنے اور خوش لباس سٹاف بٹھا دینے اور جگہ جگہ میک زدہ خواتین کے کاؤنٹر بنا دینے سے کارکردگی نہیں بڑھتی۔ یہ سب نمائشی اور تشہیری حربے ہیں۔ سہانا خواب آور ماحول دکھا کر لُوٹنے کے حیلے ہیں۔ خواتین کو شو پیس کے طور پر بٹھا کر اور انہیں محض دکھاوے کی چیزیں بنا کر ان کی توانائیوں اور حقیقی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments