بلوچستان میں بے ضابطہ بھرتیاں


میڈیا پر آرچری کا راگ الاپنے والے تیرانداز وزیراعلی بلوچستان سے انتظامی معاملات میں اس قسم کی نشانہ بازی کیوں نہیں ہورہی جیسی ایک سپاہی کی میدان جنگ میں ہوتی ہے۔ صوبے کے انتظامی معاملات میں ان کا ہر نشانہ چوک کا شکار ہو رہا ہے یا شاید وہ بندوق دوسرے کے کندھے پر رکھ کر استعمال کر رہے ہیں۔ گذشتہ ایک سال سے بلوچستان کی عوام کے کان یہ سن سن کر پک گئے ہیں کہ صوبے میں حکومتی سطح پر دعویٰ ہے کہ نہ غلط کام کریں گے نہ کرنے دیں گے لیکن سرکاری کاغذات اور سرکاری رپورٹ کا غور سے مطالعہ بتاتا ہے کہ صوبے میں نہ غلط کام کو روکا جارہا ہے نہ غلط کام کرنے والے کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔

گذشتہ ایک سال سے محکمہ تعلیم سکینڈری ایجوکیشن خبروں میں ہے لیکن کسی طرف سے کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے اب ڈائریکٹریٹ سکینڈری ایجوکیشن بلوچستان اور ڈویژنل ڈائریکٹوریٹس میں کلریکل اسٹاف اور کلاس فور کی 109 آسامیوں کو مشتہر کیا گیا جبکہ حیران کن طور پر آرڈرز 113 افراد کو ملے یعنی 4 افراد زیادہ تعینات کیے گئے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان تعیناتیوں کے حوالے سے اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں اور اے پی ٹی رولز کے مطابق ان پوسٹوں پر تعیناتی کے لئے کمیٹی کا چیئرمین کمشنر ہوگا جبکہ ایڈیشنل کمشنر ممبر اور 3 اہلکار متعلقہ محکمے سے ہوں گے۔

جبکہ اس تعیناتی کے عمل میں نہ ہی کمشنر اور نہ ہی ایڈیشنل کمشنر کو کمیٹی کا حصہ بنایا گیا۔ بھرتی کے عمل میں حیران کن طور پر جعل سازی کی انتہا کی گئی ہے۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایم انیڈ ڈی نظام مینگل جہنوں نے اس بوگس ارڈر پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا تو ایڈیشنل ڈائریکٹر آڈٹ اینڈ اکاونٹس محمد فاروق سے دستخط کروائے گئے عجلت کے اس عمل میں آرڈر کے حوالے سے منٹس میں اوپر نام فاروق لکھا گیا ہے جبکہ عہدہ نظام منگل کا ظاہر کیا گیا ہے۔

ٹوٹل 109 پوسٹوں کے لئے 2491 درخواستیں جمع ہوئیں جن کی لسٹیں ریکارڈ پر موجود ہیں جبکہ بھرتی کے آرڈر 100 ایسے افراد کو دیے گئے ہیں جنہوں نے مقررہ تاریخ تک ڈائریکٹریٹ میں کاغذات ہی جمع نہیں کروائے اور نہ ہی امتحان دینے والے امیدواروں کی لسٹ میں ان کا نام شامل تھا۔ تعیناتی کے آرڈر حاصل کرنے والے صرف تیرہ افراد کے نام لسٹ میں ہے جنہوں نے ان 2491 پوسٹوں میں کاغذات جمع کروائے اور ان کو سیریل نمبر الاٹ ہوئے ہیں۔

جبکہ 100 ایسے افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جنہوں نے درخواستیں ہی جمع نہیْں کروائی ہیں یہاں پر کمیٹی نے سکریڑی ایجوکیشن کے مشورے سے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ایک پیرا گراف شامل کیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ٹیسٹ کے دن بڑی تعداد میں لوگ آئیے اس لئے ہمیں مجبورا ان لوگوں کے کاغذات بھی نہ صرف جمع کرنا پڑے بلکہ ان کے امتحانات بھی لینے پڑے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سے عوام سوال کرتی ہے کہ کیا یہ بھرتیاں اے پی ٹی رولز کے برعکس نہیں ہیں؟

چست اور نوجوان امیدواروں کو نظر انداز کرکے 43 سال تک کے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے بھرتی شدہ ایک سو تیرہ افراد میں سے سو افراد ایسے ہیں جنہوں نے درخواستیں ہی جمع نہیں کروائی ہیں۔ میرٹ کی اکثر پوسٹوں پر ضلع نصیر آباد کے امیدواروں کو لیا گیا ہے۔ خاکروب کی پوسٹوں پر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی درخواستوں کے باوجود 8 آسامیوں پر سات مسلمان بھرتی کیے ہیں جن میں ایک حافظ قرآن بھی شامل ہے۔

اب جام کمال عوام کو بتا دیں کہ ایسا کون سا کافر دل افسر ہوگا جو حافظ قرآن سے جھاڑو لگوائے گا۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے 109 آسامیاں مشتہر کی گئی تھیں جبکہ آرڈر 113 لوگوں کے ہوئے چار آسامیاں کہاں سے لائی گئیں؟ ڈویژنل ڈائریکٹرز کی طرف سے بھیجی گئی لسٹوں کو نظر انداز کیاگیا۔ ایک نابینا فرد کو جونینئر کلرک کی پوسٹ پر لگایا گیا اب اس نابینا شخص کو کیا بلوچستان حکومت کی طرح خاک قلم کاغذ اور ٹائپ رائٹر نظر آئے گا؟ جس طرح جام کمال کو بطور وزیراعلی صوبے میں کرپشن اور بے ضابطگیاں نظر نہیں آتیں۔

جبکہ کمیٹی کے دستخط میں ایسے لوگوں نے دستخط کیے ہیں جن کا عہدہ غلط تحریر کیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال میں وزیراعلیٰ بلوچستان جن کی موجودگی کا ثمر ہے کہ بجٹ میں 7 کروڑ روپے میں کاغذی حد تک سالانہ معاملات دیکھنے والی چیف منسٹر انسپکشن ٹیم نے تو پچھلے مالی سال میں تیرہ کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے خرچ کیے ہیں اس کا فائدہ عوام کو کیا پہنچا ہے؟ کیا وزیراعلیٰ بلوچستان اس کے متعلق کچھ وضاحت کریں گے۔

اور کیا وزیراعلی بلوچستان اتنی با اختیار ہیں کہ وہ عجلت میں کیے گئے غلط فیصلے کلعدم قرار دے یا پھر ٹوئٹر پر سبز بلوچستان حسب سابق دکھانے کی وہ کوشش کریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).