ہیں بہت تلخ بندہ مزدور کے اوقات


کسی ملک کی ترقی، خوش حالی اور معاشی استحکام میں اُس ملک کے سرمایہ دار اور تاجر طبقے کا کردار ہمیشہ اہم ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک، سرمایہ دار اور تاجر طبقے کے لیے ہر ممکن آسانیاں پیدا کرنے کے لیے پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ ریاست سرمایہ داروں اور تاجروں کے سرمائے کی ضامن بھی ہوتی ہے اور یہی اہمیت پاکستان میں تقریباً تمام سرمایہ داروں بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی حاصل ہے مگر اِن میں سے چند سرمایہ دار یا صنعت کار اور تاجر ایسے بھی ہیں، جو ریاست کے وضع کیے گئے اصولوں اور قوانین کی پاسداری کی بجائے، خود ساختہ قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، مختلف حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً دی جانے والی سبسڈیز میں برابر کے حصے دار ہونے کے دعوے دار بن جاتے ہیں۔

ہمارے ملک کے تاجر، سرمایہ دار اور فیکٹری مالکان ایک طرف تو اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اداروں کی جانب سے ہونے والی کوتاہیوں اور غلط فیصلوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے چیمبر آف کامرس یا تاجر اتحاد نامی تنظیمیں بنا کر اپنے مفادات کے لیے کالا چشمہ لگائے پاکستان کے تمام میڈیا کی مکمل حمایت کے ساتھ اکثر وبیشتر سڑکوں پراحتجاج کرتے نظر آتے ہیں، جو ان کا بنیادی حق بھی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ کیونکہ بہرحال انہی کی مرہونِ منت معیشت کا پہیا اگرچہ بہتر طور نہیں، لیکن چل رہا ہے۔

مگر دوسرے طرف اس طبقے کے چند افراد کسی ظالم بادشاہ کی طرح اپنے ماتحتوں، ملازموں اور اپنے اداروں یا دفاتر میں کام کرنے والے نسبتاً کم پڑھے لکھے افراد، بلکہ یہاں تک کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حقوق سلب کیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر تعلیم یافتہ افراد، وہ روزگار کے حصول کے لیے نجی اداروں سے منسلک ہیں، اور لاعلمی کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے بھی نا واقف ہیں، جو واقف ہیں وہ بے روزگاری کے خوف سے تقاضا نہیں کرتے، کیونکہ وہ تمام انتظامی ادارے، لیبر کورٹس اور ہیومن رائٹس کے ادارے، جن کا کام ان افراد کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا، اُن کی بد عنونی اور رشوت ستانی کے سبب بیواؤں کو اپنے بچوں سمیت، مرحوم شوہر کے واجبات کے لیے دھکے کھانا پڑتے ہیں۔

بیمار ملازمین کو علاج معالجے کے لیے ”سیٹھ“ نام کے ایک غیر اعلانیہ خدائی دعویدار کے پدھارنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صنعتوں اور کارخانوں میں سیفٹی پیرامیٹرز کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مختلف حادثات میں جان سے جانے والے ملازمین یا زخمیوں کی ماؤں کو فقط وعدے اور دلاسے ملتے ہیں۔ کوئی ادارہ یا فرد ’’باس‘‘ نامی ہستی سے سوال کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔

کراچی کا صنعتی علاقہ ہو یا فیصل آباد کا فیکٹری ایریا، لاہور کے کارخانے ہوں یا سیالکوٹ کی منڈی، غرض چاروں طرف ہی ادارے کے ”سیٹھ جی“ کی اپنی حکومت اور اپنے قوانین ہیں۔ سب کا اپنا اپنا مزاج ہے مگر ایک خواہش تقریباً سب میں قدرے مشترک ہے، کہ ملازم یا ما تحت کوالٹی کے عالمی قوانین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اپنی ڈیوٹی مکمل ایمانداری اور خلوص سے سر انجام دیں۔ البتہ اس ڈیوٹی کے معاوضے کے وقت ایمانداری کی شرط ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ شرط لگانا یقیناً ”حرام“ ہے۔ مالکان میں سے تمام کی تو نہیں لیکن اکثریت کی نظر میں تنخواہ ایک غیر ضروری فعل ہے، اس لیے اس کا کوئی دن، تاریخ مقرر نہیں۔

وہ نوجوان جو قائد اعظم کے بقول اس ملک کے معمار تھے، وہ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں سرکاری نوکری کے حصول کے لیے دھکے کھا کر، اور تھک ہار کر بحالتِ مجبوری، جب ان نجی اداروں کا رخ کرتے ہیں، تو اِن کا سارا کا سارا اعتماد، خودداری اور ویژن اِس ”سیٹھ کلچر“ کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، جہاں نہ وہ اپنے حقوق کا تقاضا کر سکتے ہیں، نا اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر عزت اور وقار کی توقع کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار بھی کھو دیتے ہیں۔ یہ سیٹھ حضرات کام، کام اور بس کام والے اصول پر اس حد تک کار بند ہیں، کہ ملازموں کی زندگیوں میں آنے والی خوشیوں اور غموں کا دار و مدار بھی ”سیٹھ جی“ کے موڈ پر ہوتا ہے۔ یہ بے روزگاری کے خوف کے چابک ہاتھ میں لیے، اس ملک کے نوجوان کو جس سمت چاہتے ہیں، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانک دیتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی غلطیاں جو کسی بھی انسان سے سرزد ہو سکتی ہیں، کی بنیاد پر انسانیت کی تذلیل کی مثالیں عام طور پر نظر آتی ہیں۔ اس کو ہمارے معاشرے کا نوجوان اور مزدور طبقہ اب قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر چکا ہے۔

میڈیکل سہولیات کے نام پر نجی ادروں میں موجود فرسٹ ایڈ کا زنگ آلود بکس، ملازموں کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہوتا ہے، مگر ایسے میں اگر سیٹھ جی کی نظرِ کرم ہو جائے، تو سرکاری اسپتال تک جانے کے لیے ایمبولینس کا مل جانا بھی کس نعمت سے کم نہیں۔ عنایتوں اور سخاوت کا یہ سلسلہ چلتا رہے، تو سال کی چند چھٹیاں، وہ بھی اگر ملازم کے کسی انتہائی قریبی رشتے کی موت سبب ہو، تو قابلِ قبول ہو سکتی ہیں۔ مگر خوشیوں کے حصول کے لیے کی جانے والی چھٹیاں سازش اور ادارے کے ساتھ بے وفائی تصور کی جاتی ہیں۔ مزدور طبقہ یا ناخواندہ ملازم تو اپنے مقرر وقت پر گھر جانے کی جسارت کر سکتا ہے مگر مملکتِ خداداد کا تعلیم یافتہ نوجوان اس گھناؤنے جرم کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا سکتا۔ اگر ترقی اور بہتری کے خوابوں کی تعبیر کی خاطر رات گئے کام کر کے سیٹھ جی کی نظر میں عزت نام کی کوئی چیز بنا بھی لے، تو اُن کے لاڈلے اور جاہل بَد مزاج سپوت کے معیار پر پورا نہیں اتر پاتا۔

جب ایوانوں میں بیٹھے سیاسی مداری، علما کا روپ دھارے بھانڈ، استادوں کی شکل میں چھپے کاروباری، قلم کو بیچتے لکھاری، مسیحا کے بھیس میں چھپے ڈاکٹر، جھوٹ کو کام کا حصہ سمجھنے والے وکیل اور انصاف کے پلڑوں کو منہ چڑاتے جج، اپنا اپنا کام نہیں کرتے۔ معاشرے میں ایسا سیٹھ کلچر پروان چڑھتا ہے، جس سے جنم لینے والی مسائل کا سامنا ہمیشہ اس کمزور طبقے کو کرنا پڑتا ہے۔

دعا ہے کہ اس ملک میں میرٹ کے کلچر کو فروغ ملے اور عوامی فلاح کے اداروں میں عہدوں پر موزوں اور اہل افراد متعین ہوں، تا کہ زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت اور عزتِ نفس کو مجروح کرنے والوں سے سوال کیا جا سکے، پھر چاہے وہ کوئی سرکاری افسر ہو یا نجی ادارے کا سیٹھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).