نئے پاکستان کی “قانونی امید” شہزاد اکبر پراسرار طور پر غائب: قومی اثاثے نہیں مل سکے، حکومتی اثاثہ گم ہو گیا


معروف صحافی انصار عباسی نے خبر دی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے شرلاک ہومز سمجھے جانے والے بیریسٹر شہزاد اکبر گزشتہ کئی ہفتوں سے لاپتہ ہیں۔ پریس کانفرنسوں سے خطاب اور ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کا شوق رکھنے والے شہزاد اکبر نے گزشتہ کئی ہفتوں سے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی اور ٹاک شوز میں بھی بمشکل ہی نظر آتے ہیں۔ بیرون ممالک کے بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے جمع کیے گئے 200 ارب ڈالرز کی واپسی کے لئے وزیراعظم سیکریٹریٹ میں قائم کیے گئے اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ شہزاد اکبر فون بھی نہیں اٹھا رہے۔  پیغامات کا جواب بھی نہیں دے رہے۔

وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ان کے اسٹاف سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بیریسٹر صاحب باہر گئے ہیں اور میٹنگوں میں مصروف ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ایک سے زیادہ مرتبہ کہا ہے کہ بیرون ملکوں کے بینکوں میں غیر قانونی طور پر جمع کیے گئے پاکستانیوں کے 190 ارب ڈالرز کی رقم پاکستان واپس لانا مشکل ہے۔ شہزاد اکبر کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آ رہی کہ ایسی صورت میں اے آر یو کا جواز کیا ہے اگر حکومت خود اعتراف کر چکی ہے کہ وہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کے اربوں ڈالرز واپس نہیں لا سکتی۔

بیریسٹر شہزاد اکبر وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے احتساب ہیں۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد، پی ٹی آئی حکومت نے شہزاد اکبر کی سربراہی میں اے آر یو تشکیل دیا جس کا مقصد بیرون ملک چھپائے گئے اثاثوں کی واپسی تھی۔

شہزاد اکبر نے اپنی آخری پریس کانفرنس اگست میں کی تھی اور مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کے خلاف چوہدری شوگر ملز میں مبینہ منی لانڈرنگ کی چارج شیٹ جاری کی تھی۔ اگلے ہی دن نیب نے مریم اور یوسف کو گرفتار کر لیا۔

میڈیا ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزاد اکبر کی گزشتہ کئی پریس کانفرنسز شریف خاندان کی مبینہ کرپشن پر بات کے لئے منعقد کی گئی تھیں۔ کبھی کبھار پریس کانفرنسز میں آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کے کیس پر بھی بات کی جاتی تھی۔ جولائی میں شہزاد اکبر نے چار پریس کانفرنسز کیں۔ ان تمام میں انہوں نے شریف فیملی اور ان کی مبینہ کرپشن کا ذکر کیا۔ اخبارات کے ریکارڈ کو دیکھیں تو گزشتہ کئی مہینوں میں شاید ہی کبھی شہزاد اکبر نے اثاثہ ریکوری یونٹ کے بنیادی مقصد پر بات کی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).