اقرا عزیز کی اشتعال انگیز تصویر


اقرا عزیز نے قومی جذبات کو مستقل آگ لگائی ہوئی ہے۔ پہلے وہ لاکھوں دیکھنے والوں کو سلگاتے ہوئے لکس ایوارڈز کی تقریب کے دوران یاسر حسین کے ہاتھوں یوں سرعام پروپوز ہو گئیں جیسے یاسر حسین انہیں پروپوز نہ کر رہے ہوں بلکہ بقول یوسفی تخمی آم چوس رہے ہوں۔ ان دونوں کو مشرقی اقدار کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ بہتر ہوتا کہ یاسر حسین اپنے بزرگوں کو اقرا عزیز کے گھر بھیجتے اور وہ شگن اقرا کے ہاتھ پر رکھ کر بات پکی کر آتے۔ اب یہ کیا حرکت کی انہوں نے؟ کیا انہوں نے سوچا کہ ان کے بزرگ تو ٹی وی پر اپنے بچوں کی ایسی منگنی دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے ہوں گے۔ نوجوان نسل نے اس منگنی کا کیا اثر لیا ہو گا؟ وہ بزرگوں سے چھپ چھپ کر اپنی منگنیاں کیسے کر رہی ہو گی؟ اور ننھے منے معصوم بچے اب تخمی آم کو کس نظر سے دیکھنے لگے ہوں گے؟

خیر ادھر ہوسٹن میں ہم ٹی وی کے ایوارڈز کی تقریب ہوئی جس میں اقرا عزیز کو ”سنو چندا“ پر بہترین اداکارہ کا ایوارڈ پبلک ڈیمانڈ کی کیٹیگری میں دیا گیا۔ اور اب دیسی خوابوں کی یہ شہزادی ڈزنی لینڈ پہنچ گئی ہے۔ اقرا عزیز نے اپنے ساڑھے سات لاکھ فالوورز والے فیس بک پیج پر اپنے منگیتر یاسر حسین کے ساتھ اپنی تصویر پوسٹ کی ہے جس میں وہ اور ان کے منگیتر یاسر حسین سنڈریلا کے محل کے سامنے نیکر پہنے ایک دوسرے سے لپٹے کھڑے ہیں۔

یہ تصویر دیکھتے ہی باحمیت اور ذی شعور لوگوں کو آگ لگ گئی ہے۔ اب تک ایک ہزار سے اوپر کمنٹ کیے گئے ہیں اور تقریباً سب میں ہی اقرا عزیز کی مذمت کی گئی ہے۔ لوگ بجا طور پر نشاندہی کر رہے ہیں کہ اقرا عزیز امریکہ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں اور انہیں یوں ملک کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔

ہر صاحب دل پاکستانی اس موقف کی تائید کرے گا۔ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقرا عزیز سے وطن عزیز کی نمائندگی کا حق فوراً واپس لیا جائے اور ان کے کاغذاتِ تعیناتی واپس لے کر انہیں اسی طرح فوراً فارغ کر دیا جائے جس طرح ملیحہ لودھی کو کیا گیا تھا۔ اقرا عزیز کو ہرگز بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قومی جذبات کو اس طرح برانگیختہ کریں اور نوجوانانِ قوم کو جلاپے میں مبتلا کر دیں۔

انہیں خود خیال رکھنا چاہیے کہ جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں وہ پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتے اس لئے انہیں رعایت دی جا سکتی ہے۔ وہ ننھے بچوں کا ریپ کریں یا قتل کریں، ان کے متعلق دنیا میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اس لئے پیارا وطن بدنام ہونے سے بچ جاتا ہے۔ مگر ایک حسین اداکارہ اگر اپنے منگیتر کے ساتھ ملک سے باہر جا کر ڈزنی لینڈ میں مختصر لباس میں تصویر اتروا لے تو ساری دنیا کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ پاکستانی ہے اور تصویر اتروا کر اس نے پوری قوم کو بدنام کر ڈالا ہے۔ مغربی قومیں ایسے لباس والیوں کو بہت گھور گھور کر دیکھتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ بے حیا کس ملک سے آئے ہیں؟

کئی باحمیت نوجوانوں نے کہا کہ وہ اقرا کو بہت پسند کرتے تھے، انہیں فالو کرتے تھے مگر اب یہ تصویر دیکھنے کے بعد وہ اقرا کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں گے۔ بہت سے لوگوں نے اقرا کے ایمان کی کمزوری پر افسوس کا اظہار کیا۔ پتہ نہیں کس دل سے وہ محض اقرا کو سدھارنے کی خاطر اپنی نظر نیچی کرنے کی بجائے انہیں اتنے غور سے دیکھتے ہوں گے تاکہ ان کی شخصیت کا کوئی منفی گوشہ ان نوجوانوں کی نظر سے بچ نہ پائے۔

کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ اقرا کو دوسرے ملک میں جا کر ایسے بے شرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا، اپنا ملک بہتر رہتا۔ اسے برقع پہننا چاہیے لیکن ایسے بے شرموں کے تو الٹا باہر جاتے ہی کپڑے اتر جاتے ہیں۔ اپنی تہذیب کو بھول جاتے ہیں اگر ایسا ہی شوق ہے تو وطن عزیز میں کپڑے اتاریں کم از کم اس طرح پاکستان دوسرے ملکوں میں بدنام تو نہیں ہو گا۔ اس سے نوجوانان قوم اور پیران ملت کی حق تلفی ہوتی ہے۔ پاکستان کا نام خراب کرنے اور پاکستانیوں کے ارمانوں کا خون کرنے کا حق اقرا کو نہیں دیا جا سکتا۔

ادھر ڈزنی لینڈ میں سب امریکی پوچھ رہے تھے کہ کیا یہ پاکستانی ہے؟ لیکن ہیں سب کے سب حرام خور اور دھوکے باز۔ تصویر میں سینکڑوں لوگ ہیں اور صرف ایک خاتون کالا چشمہ لگا کر اس جوڑے کو چپکے چپکے دیکھ رہی ہیں۔ باقی امریکی ایسے اداکاری کر رہے ہیں جیسے اپنے اپنے کام میں مصروف ہوں اور توجہ ہی نہیں دے رہے کہ یہ دونوں کس طرح پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں۔

تصویر میں جیسے یہ لپٹے کھڑے ہیں اسے دیکھ کر ایک غیرت مند پاکستانی یہی سوچتا ہے کہ ان دونوں کو اتنی آگ لگ رہی ہے تو شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ شادی سے پہلے ان دونوں کا اکٹھے گھومنا جائز نہیں ہے۔ یہ ہماری اعلیٰ مشرقی تہذیب کے خلاف ہے۔ بلکہ شادی کے بعد بھی ان کا اکٹھے گھومنا غلط ہے۔ اقرا گھر میں چولہا چوکی کرے، امریکہ کیوں چلی گئی ہے؟ سب سے بڑی بات کہ یہ دونوں خوش کیوں دکھائی دے رہے ہیں؟

اور یہ ڈراموں میں کیوں کام کرتی ہے؟ کیا اسے علم نہیں کہ اچھی مشرقی لڑکیاں شرم و حیا کی پتلیاں ہوتی ہیں اور زنانہ ڈائجسٹ کے گھریلو ناول پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف اپنی بہو اور ساس نندوں کے ساتھ ڈرامے کر سکتی ہیں، ٹی وی میں ڈرامے نہیں کر سکتیں۔

بہرحال اقرا اور یاسر کی تصویر میں سب کچھ منفی نہیں ہے۔ مثلاً یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اقرا جاگنگ کی بہت شوقین ہیں۔ انہوں نے نئے نکور جاگرز پہن رکھے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے عثمان بزدار پہنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ٹانگوں کی ساخت پر محض تحقیق کے جذبے سے دس بیس منٹ غور کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی فگر مینٹین رکھنے کے لئے خوب جاگنگ کرتی ہیں۔ اسی سبب ان کی ٹانگیں ایسی مسکولر ہیں کہ فٹبالر بھی دیکھیں تو رشک کریں۔ اتنی زیادہ جاگنگ کرنے سے ایک تو وزن کم ہوتا ہے، صحت بھی بنی رہتی ہے اور کوئی بری نظر بھی نہیں ڈالتا جیسا کہ اس تصویر میں موجود دیگر لوگوں کی نظروں سے بھی واضح ہے۔ صحیح کہہ گئے ہیں سیانے کہ بلاوجہ ورزش کر کے خدا کے دیے ہوئے جسم کو برباد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے نیچرل شیپ میں رکھنا چاہیے۔

اقرا عزیز کو آئندہ محتاط رہنا چاہیے۔ قوم کی نظر میں ان کا یہ جرم ہی بہت بڑا ہے کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت ہیں۔ اب اگر وہ اس طرح کی حرکتیں کر کر کے قومی جذبات کو مشتعل کرتی رہیں تو قوم انہیں کیسے بھول پائے گی؟ شاعر ایسے ہی کسی کیس میں قومی جذبات کا اظہار کر گیا ہے کہ ”ہائے مرجائیں گے، ہم تو لُٹ جائیں گے، ایسی باتیں کیا نہ کرو“۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar