مبارک ہو آپ کا بچّہ عوام کے مفاد کی خاطر مرا ہے


ہسپتال کی ایمرجنسی میں ایک گھنٹہ کیا گزارا سکون کی دنیا ہی لٹ گئی۔ ایک تو ایمرجنسی، اوپر سے مریضوں کا بے تحاشا رش اور ستم بالائے ستم ڈاکٹروں کی ہڑتال۔ کیا کروں ایک لمحے کو سوچا لیکن ان دیکھی قوتیں حاوی ہوگئیں اور میں وہاں بیٹھ ہی گیا۔ ایمرجنسی کا سرکاری کارندہ او پی ڈی پرچیاں بانٹ رہا تھا اورہر پرچی کے ساتھ یہ دھمکی بھی دے رہا تھا ڈاکٹر بس جانے والا ہے اور حکم بھیجا ہے کہ اور پرچیاں نہ بانٹو۔

اپنی پرانی گھڑی پر نظریں پڑیں تو پتا چلا کہ ابھی تو دن شروع ہوا ہے ڈاکٹر کہاں جاسکتا ہے۔ سوچوں میں غرق خود کو غلط فہمیوں میں ڈالنے کی ایک ناکام کوشش کرہی رہا تھا کہ ایسے میں ایک آواز سماعتوں میں گونجی۔ مجھے ڈینگی نے کاٹا ہے بخار چڑھا ہوا ہے ڈاکٹر کہاں بیٹھا ہے ایک پرچی دو جلدی۔ مریض پرنگاہیں پڑیں وہ واقعی تکلیف میں تھا۔

ایک نوجوان بھی اس ہجوم میں موجود تھا جس کو کتے نے کاٹا تھا وہ بھی پرچی مانگ رہا تھا۔ میں سر ہاتھوں میں دبائے یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ ایسے میں وہاں سفید ریش بزرگ بھی نظروں کے سامنے آگئے۔ ہاتھوں میں لاٹھی تھمائے، چہروں کی جھریوں پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے وہ خوش ہونے کی شاید ایکٹنگ کر رہے تھے کیونکہ یہاں بھی لائن میں ان کو دھکے ہی مل رہے تھے اور مجھے پریشانی یہ تھی کہ اس دھکم پیل کے بعد جب ان کی باری آئے گی تو کیا ڈاکٹر صاحب وقت دے گا؟

خود سے اور اپنی سوچوں سے جان چھڑانے کی ہزار کوششیں کیں لیکن ناکام ہوا۔ اندر ایمرجنسی میں بیٹھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے زبردستی مجھے حبس بے جا میں رکھا ہے کیونکہ گھٹن لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مریضوں کا جم غفیر عین دروازے کے سامنے تھا۔ ایک بوڑھی ماں کانپتے ہاتھوں اور لرزتے ہونٹوں کے ساتھ کرسی پر مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھی اور انتہائی عاجزی کے ساتھ مجھے ڈاکٹر سمجھ کر گویا ہوئی۔

میرا بچّہ چھت سے گر گیا ہے مجھے پرچی دو اور میرے بچے کو بچالو۔ میں نے جیسے ہی اس کو یہ کہا ماں جی میں ڈاکٹر نہیں ہوں اور آپ کو پرچی ادھر ہی سے ملے گی تو وہ زار زار رونے لگی۔ آنسو گر رہے تھے لیکن شور میں ہچکیاں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ وہ بوڑھی ماں دوپٹے کے پلّو سے آنسو پونچھنے لگی اور میں دل ہی دل میں خود سے پوچھتا رہا کس گناہ کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ وہاں سے اٹھا اور وارڈز کے چکر لگائے آپ یقین کریں غریب عوام انتہائی تکلیف میں تھے میں نے ایک دو کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ سیخ پا ہوئے۔

ابھی کل ہی پتا چلا ایک غریب باپ اپنے بچے کو جس نے پوری رات بخار میں تپ کر گزاری تھی صبح ہسپتال لے جارہا تھا کسی نے کہا ہسپتال تو بند پڑا ہے ڈاکٹرز نہیں ہیں۔ اس سادہ لوح نے جیسے ہی سنا تو بچے کو رکشے میں بٹھا کر دوسرے ہسپتال کی طرف روانہ کیا لیکن راستے ہی میں اس بچے کی فوتگی ہوئی۔ کون سی ٹیکنیک کا سہارا لے کر اس غریب بے چارے باپ کو کوئی سمجھا سکے گا کہ آپ کے معصوم بچے نے حکومت اور عوام دونوں کے مفاد میں جان دے کر جام شہادت نوش کیا ہے۔ کیا وہ مان لے گا کہ یہ حکومت کے ایم ٹی آئی ایکٹ اور ڈاکٹرز کے درمیان تنازعہ ہے جس کی بھینٹ اس کا جگر گوشہ چڑھا ہے۔

ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ وہ عوام کی خاطر لڑ رہے ہیں اور حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ نہیں یہ ہم ہیں جو عوام کا دکھ درد سمجھتے ہیں۔

دونوں طرف دعوے کیے جارہے ہیں لیکن ان دعووں کے بیچ نقصان صرف عام آدمی ہی اٹھا رہا ہے۔ عا م آدمی جس کے پاجامے میں جھانکتے گھٹنے، چہرے پر پژمردگی اور نہ ختم ہونے والے بے قرار تاثرات، جسم میں نا امیدی سے بھرپور سستی اور لمحہ بہ لمحہ سرگشیوں میں ایک دوسرے سے یہ سوال ڈاکٹر صاحب کب آئے گا کہیں کسی خطرناک طوفان کا پیشہ خیمہ ثابت نہ ہوجائے۔

حکمران حدود کو پہچاننے سے جب قاصر ہوجاتا ہے تو پھر ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایم ٹی آئی ایکٹ میں جتنی بھی شقوں پر ڈاکٹر صاحبان کو تحفظات ہیں وہ عوام کے سامنے لاکر انہی ڈاکٹرز کے ساتھ مذاکر ات کیے جاسکتے ہیں لیکن ضد اور ہٹ دھرمی میں بھی بھلا کوئی قوم سکون پا سکی ہے۔ ان تمام مسائل کی ذمہ دار حکومت ہی ہے اور جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی، جو حکومت انقلاب لانے کا سوچتی ہے ان کے پاس ہوم ورک ضرور ہوتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی کام کے لئے ہوم ورک موجود نہیں ہوتا۔

اگر حکومت کو لگتا ہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ سے عوام کا فائدہ ہوگا تو کیوں اپنی رٹ قائم نہیں رکھ سکتی۔ دوسری، اس ایکٹ کو پورے صوبے میں نافذ کرنے سے پہلے ڈاکٹرز کو اعتماد میں لینا ضروری تھا جس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ان پر لاٹھیاں برسائیں جو لازمی بات ہے اس پورے طبقے کے لئے پریشانی کا باعث بنا۔

عوام کو سہولت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے یہی میں سوچ رہا تھا کہ ایسے میں بریکنگ نیوز پر نظریں پڑی کہ وزیراعلیٰ نے مولانا صاحب کے مارچ کو روکنے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور مولانا صاحب کے ذمہ داران اسمبلیوں میں حکومت وقت کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں روک سکتی۔ قومی میڈیا کو ٹٹولا اس امید کے ساتھ کہ شاید یہاں ہی کوئی ذکر ہو خیبر پختون خواہ کے ہسپتالوں کا لیکن وہاں بھی لڑائی اس بات پر جاری تھی کہ مولانا صاحب دھرنا دیں گے، لاک ڈاؤں کریں گے یا آزادی مارچ ہوگا۔

پریشانی اور بھی بڑھی سوچا یہاں سے چلتا بنوں کہ ایسے میں وہی بوڑھی ماں جس کو شاید کسی نے اس نام نہاد لڑائی کا بتایا تھا میرے پاس آئی اور پوچھا۔ بیٹا ڈاکٹرز اور حکومت کب بیٹھیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).