رابیرت بارتینی: سوویت طیارہ سازی کا ”سرخ نواب“


”ماضی، حال اور مستقبل۔ ۔ ۔ ایک ہی ہیں۔ اس طرح سے وقت راستے سے مماثل ہے۔ جب ہم سے گزر چکے ہوتے ہیں تو راستہ معدوم نہیں ہو جاتا۔ وقت بھی ایک لمحے کے لیے نہیں رکتا، بس موڑ آتے رہتے ہیں“۔ یہ الفاظ لکھنے والے کی شخصیت بارے بہت سی افواہیں ضرور تھیں، لیکن اس کے اصل نام سے کم لوگ ہی شناسا تھے۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں سوویت انجینیروں اور سائنسدانوں کے حلقے میں ایک داستانی کردار طیارے ڈیزائن کرنے والے دونائیو کا رہا۔

یہ فیمیلی نیم تو ایک بار شاید سبھی نے سنا تھا لیکن کوئی بھی اس سے یا اس کی شکل دیکھنے والے کسی بھی شخص سے شناسائی بارے لاف زنی نہیں کر سکتا تھا۔ بس اتنا ہی ہی معلوم تھا کہ دونائیو نے طیارے ڈیزائن کرنے والی شخصیت تیوپلیو کے ساتھ کام کیا تھا جو کچھ کم داستانی اہمیت کے حامل تھے۔ کئی بار گورنمنٹ سیکیورٹی کے سربراہ لاورینتی بیریا اور دوسرے معروف سوویت حکام سے مل چکے تھے۔ یہ کہ وہ اطالیا کے آمر بینیتو مسولینی سے ذاتی طور پر واقف تھے۔

فرضی نام ”“ کا راز کوئی دس سال پیشتر افشا ہوا ہے۔ رابیرت بارتینی، ایک نامور طیارہ ڈیزائینر اور سائینسدان تھے جو راز میں رہ کر سوویت خلائی پروگرام کے روح رواں تھے۔ سوویت خلا بازی کے ”باوا“ سرگئی کارالیوو نے بارتینی کو اپنا گرو کہا تھا۔ طیارہ سازی اور طبیعیات کے علاوہ بارتینی کو کائنات شناسی اور فلسفے میں بھی درک حاصل تھا۔ انہوں نے شش جہتی جہان کا منفرد تصور تخلیق کیا تھا جس میں زمان مکان ہی کی طرح سہ جہاتی بیان کیا گیا تھا۔ اس مفروضے کو ”جہان بارتینی“ کا نام ملا تھا۔ فضائی حرکیات کے بارے تحریروں میں ایک اصطلاح ”اثر بارتینی“ بھی پائی جاتی ہے۔

تاحتٰی مستقبل کے نابغہ کے مقام پیدائش سے متعلق بھی ان کی داستان حیات لکھنے والے متفق نہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ شمالی اطالیا میں پیدا ہوئے تو کسی نے کہا کہ آسٹرو ہنگری میں۔ بالآخر رضامند ہو گئے کہ رابیرت دریائے ڈینیوب کے کنارے پر واقع ایک شہر کانیژے میں پیدا ہوئے تھے مستقبل میں اطالوی کے طرو پر جانے جانے والا یہ بچہ آسٹروہنگری کے ایک نواب لیودوویک دی بارتینی کا ناجائز بچہ تھا۔ رابیرت سے اس کے اپنے باپ نے منہ پھیر لیا تھا۔ کسی نے اسے گود لے لیا تھا اور اسے بہترین تعلیم دلوائی تھی۔ اس میں بچے کی بے پناہ خداد داد صلاحیتوں اور تربیت کے اہم اصولوں سے متعلق آزادی دونوں ہی کا عمل دخل تھا۔

اس کے ساتھ بچپن سے ہی داستانیں وابستہ ہو گئی تھیں۔ یہ بچہ معجزانہ طور پر دونوں ہاتھوں سے مصوری کر سکتا تھا۔ بیک وقت کئی زبانیں پڑھنا سیکھ گیا تھا، مثال کے طور پر جرمن زبان اس نے یوں سیکھی تھی کہ اس کی ماں اسے کیسے جیول ورنے کی متحیر کن کہانیاں جرمن زبان میں لکھی کتابیں پڑھ کر کے سناتی تھیں۔ البتہ وہ تحریر کو الٹا پڑھنا سیکھا تھا کیونکہ کتاب کو دوسرے سرے سے پکڑا کرتا تھا۔ چھوٹے نواب میں بہت پہلے ٹیلی پیتھی کی صلاحتیں نمودار ہو گئی تھیں۔ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی ان سرگرمیوں کے بارے میں جو انہوں نے ابھی نہیں کی ہوتی تھیں پہلے سے ہی بتا دیا کرتا تھا۔ اس کے اقرباء نے اس صلاحیت کو دوسروں کی نفسیات کے نازک نکات سے شناسائی پہ محمول کیا تھا۔ اس بچے کی اپنی رصد گا تھی۔ جب وہ سولہ برس کا تھا تو والد نے اسے طیارہ تحفے میں دیا تھا۔

پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ 1916 میں رابیرت محاذ جنگ پہ چلا گیا تھا جہاں اسے روسیوں نے جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ اٹلی واپس جا کر اس نے میلان کے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے فضائی پرواز کے شعبے میں تعلیم مکمل کی تھی۔ 1923 میں وہ سوویت روس آئے تھے تاکہ مزدوروں کسانوں کی حکومت کو طیارہ سازی میں مد دیں۔ سرکاری موقف کے مطابق انہیں یہاں اطالیا کے کمیونسٹوں نے بھجوایا تھا، جن کے ساتھ وہ یگانگت محسوس کرتے تھے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ انہیں سوویت ایجنٹ وہاں سے اغوا کرکے لے آئے تھے۔

سوویت یونین میں ”کامریڈ نواب“ کو جنرل کا عہدہ دے کر انہیں سائنسی تجرباتی ہوائی اڈے کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ 1930 میں رابیرت طیارہ ڈیزائینر بیورو کے سربراہ بن چکے تھے۔ ان کی زیر سربراہی صرف داستانی اہمیت کے حامل سرگئی کرالیو نے ہی نہیں بلکہ دوسرے معروف سوویت طیارہ ڈیزائینروں نے بھی کام کیا تھا۔ نیجتا ”انہوں نے جن کو بارتینی کی سربراہی میں محنت کرنا پڑی تھی انہیں“ سوویت طیارہ سازی کا ناقابل فہم نابغہ ”کہا تھا۔

رابیرت خفیہ ایجنسی کی توجہ میں آئے بغیر نہیں رہ سکا تھا کیونکہ وہ ایک مشکوک انسان تھے۔ اس کی وجہ ان کے ”اپارٹمنٹ کا اچھا نہ ہونا“ تھا، جسے ڈیزائینر نے خود رنگا تھا۔ ایک کمرے کو گہرا سرخ رنگ کیا تھا۔ دورے کمرے کی چھت پر ستارے تھے اور دیوراوں پر سمندر تھا جس میں جزیرے تھے۔ بارتینی نے وضاحت کی تھی کہ پہلا کائنات کی توانئی بخشتا ہے اور دوسرا تخلیقی صلاحیت۔ اس سائنسدان کے متعلق اور عجیب باتیں بھی مشہور تھیں۔

بارتینی کی آنکھیں روشنی سے چندھیاتی تھیں اس لیے ان کی کھڑکیوں پر ہر وقت پردے کھنچے رہتے تھے اور باہر وہ سیاہ چشمہ لگا کر نکلا کرتے تھے۔ اس قسم کے انداز نواب موصوف کو ایک ہی جانب لے جا سکتے تھے یعنی بیگار کیمپ کی جانب۔ اگر درست کہا جائے تو وہ طیارہ ڈیزائننگ بیورو تھا جہاں مقدمہ چلائے گئے سائنسدان اور انجینیر کام کیا کرتے تھے۔ 1938 میں بارتینی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے جیل کے اندر قائم ڈیزائینر بیورو میں توپلیو کے ساتھ کام کیا تھا اور جنگ کے پانچ برس بعد انہیں رہائی ملی تھی۔

اس بات کی بھی شہادت ہے کہ بارتینی نے ایک بار اپنے رفقائے کار کو حقیقی معجزہ بھی دکھایا تھا۔ جس کو بعد میں اس طرح سے پردہ راز کے پیچھے دھکیل دیا گیا کہ آج بھی اس واقعے کی صراحت سے تاریخ کا اور نہ ہی اس کے مقام وقوعہ کا پتہ لگایا جانا ممکن نہیں۔ شہادتوں کے مطابق یہ 1930 کے عشرے کا وسط تھا اور سوویت یونین کے شمال کا کوئی جنگی ہوائی اڈّہ۔ شاہدین جنہوں نے بیان کیا سبھی متحیر و متعجب تھے۔

” جونہی انجن چلا کچھ غیر معمولی سے ہونے لگا تھا۔ اس کی توقع تھی کیونکہ افواہ تھی کہ صرف انجن کے سٹارٹ ہونے کا انتظار کیا جائے۔ کیونکہ یہ سب کچھ ایک سرکاری مقام پہ ہوا تھا اس لیے ناظرین کو تمام جزئیات یاد رہیں۔ اسے لگا جیسے“ کن ”کہہ دیا گیا اور پھر“ کن فیکن ”ہو گیا۔ طیارے کی باڈی کے پہلووں میں کے پائیپوں سے نیلے رنگ کی ایک دھار نکلی ٹھک کی آواز آئی۔ پھر طیارے نے معدوم ہونا شروع کر دیا۔ وہ کس جگہ پہ ہے، زمین سے اٹھ چکا ہے، بلندی کی جانب جا رہا ہے، اس کا اندازہ بس جنگل کے اوپر سے آتی ہوئی آواز سے ہی لگایا جا سکتا تھا“۔

”غیر مرئی“ طیارے، صرف انسانی آنکھ کے لیے ہی غیر مرئی نہیں بلکہ ہر طرح کے بصری آلات کے لیے ”غیر مرئی“ طیارے کے منصوبے پر بارتینی سالوں سے کام کر رہے تھے۔ تجربہ کیے جانے سے متعلق نہ تو یقین سے کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی تحقیق کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ 1930 کی دہائی رہی ہو یا 1950 کی دہائی کا آغاز۔ بس اتنا معلوم ہے کہ ”غیر مرئی“ طیارے کی پہلی شکل کا یہ تجربہ سٹالن کی زندگی کے دوران ہی کیا گیا تھا۔ دنائیو یا بارتینی کے طیارے نے متحیر کن نتائج پیش کیے تھے۔

وہ غائب ہو گیا تھا جیسے وہ پہلے کبھی تھا ہی نہیں اور پھر سے نمودار ہو گیا تھا۔ اس کے بعد معمہ خیز واقعہ ہوا تھا۔ غیر مرئی طیاری یکسر غائب ہو گیا تھا۔ لگتا ہے کہ کوئی بالکل نہیں چاہتا تھا کہ اس قسم کا طیارہ سوویت یونین کے پاس ہو۔ اس سلسلے میں اہم کردار بلا شبہ سٹالن کی موت کا رہا تھا کیونکہ اس کے بعد قیادت کے لیے شدید کشمکش شروع ہو چکی تھی۔ حکام ٹکڑوں میں تقسیم کیے جا چکے تھے۔ دستاویزات تلف کر دی گئی تھیں۔

بارتینی کے معاصرین کے ایک حصے کو نقصان پہنچا دیا گیا تھا۔ ”غیر مرئی“ طیارے میں، جیسے کہ رابیرت کے ہم عصر لوگوں نے بتایا تھا، ایسے آلات تھے جن کو بہت سے نامور طیارہ ڈیزائنر سمجھ ہی نہیں پائے تھے۔ مشاورت کے لیے سائنس اکیڈمی سے ماہرین طبیعیات کو بلایا گیا تھا، تاحتٰی وہ بھی کبھی نہیں جان پائے تھے کہ یہ سب کس لیے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ غیر مرئی ہونے کا تاثّر طیارے کی منفرد آئینہ نما باڈی تھی۔ طیارہ ساز نے رنگ کے تناسب کا کھیل کھیلا تھا یوں طیارہ غائب ہو سکتا تھا۔

خود دونائیو بارتینی نے کبھی نہ تو اپنے کام سے متعلق بتایا تھا اور نہ ہی اپنی ذات کے بارے میں۔ وہ ملتے جلتے نہیں تھے اگرچہ ہمیشہ خلیق اور شفیق دکھائی دیتے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کا کوئی کنبہ بھی ہے، اہلیہ اور بچے ہیں یا نہیں۔ خفیہ شخصیت کے حامل یہ طیارہ ڈیزائینر، اس بارے میں کسی کو نہیں بتاتے تھے۔ ریبیرت کی موت کے بعد کہیں جا کر خفیہ ایجنسی کے اس کرنل نے ان کی زندگی سے متعلق بتایا، جو سالہا سال تک بارتینی پہ نظر رکھے جانے کے کام پہ مامور رہے تھے۔

ان کے مطابق نواب صاحب ٹائی پہ ہمیشہ کسی قسم کا زیور اڑسے رہتے تھے، جس میں ناقابل فہم چمکدار پتھر جڑا ہوتا تھا۔ کرنل کو یقین ہے کہ ہو نہ ہو یہی وہ جادوئی آئینہ جہان تھا۔ ایک بار خفیہ ایجنسی کے اہلکار نے اسے چھو لیا تھا تو وہ کوئی بھی حرکت کرنے سے عارضی طور پر قاصر ہو گیا تھا۔ اہلکار کرنل بتاتے ہیں ”اس قسم کا احسا تھا کہ یہ چیز خوفناک رفتار کے ساتھ آپ کو ایک فریکوئنسی سے دوسری فریکوئنسی کی جانب دھکیل رہی ہو۔ اور آپ کچھ بھی نہیں سمجھ پاتے کہ کس فریکوئنسی سے ہم آہنگ ہوا جا سکتا ہے۔ مگر بارتینی یہ جانتے تھے! “ اپنے اس رازبھرے پتھر کو بارتینی نے تاحتٰی بیگار کیمپ میں بھی چالاکی کے ساتھ چھپائے رکھا تھا۔ وہ اسے مفلر میں رکھے رہتے تھے۔

کہتے ہیں کہ بارتینی اندھیرے میں بہت اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔ انہیں کبھی بھوک یا پیا س نہیں لگتی تھی۔ ان کے ہم عصر افراد کے مطابق وہ مطعم میں وضعداری کے باعث ہی چکھ لیا کرتے تھے۔ بلکہ ایک بار تو ڈیزائنر بیورو میں ہنگامی طبی امداد طلب کرنا پڑ گئی تھی۔ بارتینی یک لخت بیہوش ہو گئے تھے۔ ڈاکٹروں نے معلوم کیا تھا کہ ان کے جسم میں پانی کی کمی واقع ہو گئی تھی۔ بہت ممکن تھا کہ بارتینی بھول گئے ہوں کہ انہیں کھانا پینا بھی چاہیے۔

وہ اکثر گھنٹوں تک آنکھیں بند کرکے ساکت بیٹھے رہا کرتے تھے، کہا جاتا تھا کہ انہیں آسمان سے کچھ بتایا جاتا تھا اور انہیں وہ سب غور سے سنننا ہوتا تھا۔ اس کے فوراً بعد وہ کوئی ایسی دشوار گتھی سلجھانے میں لگ جایا کرتے تھے جو سالوں سے انہیں پریشان کیے ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں رابیرت کو جاننے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ بارتینی آنے والے واقعات سے متعلق بھی جانتے تھے اور کبھی کبھار مذاق میں مستقبل کے بارے میں بھی بتا دیا کرتے تھے۔ تصدیق کی جاتی ہے کہ ان کی کہی بات انتہائی درست ہوا کرتی تھی۔

بارتینی کے ڈیزائین کردہ آلات اپنے ہم عصر آلات سے کہیں فروتر ہوا کرتے تھے۔ 1942 میں بارتینی نے ایسا جیٹ طیارہ ڈیزائن کیا تھا جو 2400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا تھا۔ اس زمانے میں طیاروں کی رفتار پانچ سو کلومیٹر گھنٹہ ہوا کرتی تھی۔ ”ایسا ہونا ممکن نہیں“، ان کے مد مقابل نے کہا تھا ”طیارہ پنکھے کے بنا نہیں ہو سکتا“۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر طیارہ ڈیزائنروں نے بارتینی کا تصور کاغذوں پہ اتار لیا تھا۔ ساٹھ طیاروں کی چند طیارے ہی بنائے گئے تھے۔ وہ بھی اس لیے کہ اس کی بنا پر بارتینی کو اعلٰی ترین اعزاز ”لینن ایوارڈ“ دیا جانا مقصود تھا۔

ویسے بارتینی کی طیارہ سازی کو صنّاعی خیال کیا جاتا تھا۔ اہم چیز نظری طبیعیات ہی ہوتی ہے۔ ان کا وہ مضمون جو شش جہتی جہان سے متعلق تھا 1965 میں سائینس اکیڈمی کی رپورٹس نامی مجلے میں شائع کیا گیا تھا۔ مصنف نے پہلی بار اپنا پورا نام لکھا تھا: رابیرتو اوروس دی بارتینی۔ یہ اپنی طرح کا چیلنج تھا۔ پہلے پہل مضمون اور مصنف دونوں کو ہی کسی طرح کا کھیل سمجھا گیا تھا، پھر بکھیڑا کھڑا ہو گیا تھا۔ آج بارتینی کے تصور کی نظری اور تجربی توثیق ہو چکی ہے۔

بارتینی کی موت چار پانچ دسمبر 1974 کی درمیانی رات کو ہوئی تھی۔ جب ان کی لاش کو دو روز بعد کچن کے فرش پہ پڑا پایا گیا تھا تو ٹونٹی سے پانی بہہ رہا تھا اورچولہے میں گیس جل رہی تھی۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس ہی رات بارتینی نے اپنی لکھی تھی، اسے ایک سیاہ لفافے میں ررکھ کر موٹے پردے میں چھپا دیا تھا۔ پیکٹ کو اچھی طرح مہر بند کیا گیا تھا۔ اپنی میں نابغہ نے ہدایت کی تھی کہ ان کے کاغذات کو ایک دھات کے ڈبے میں بند کرکے رکھ دیا جائے اور 2197 تک نہ کھولا جائے۔ اپنی لوح قبر کے لیے بارتینی نے لکھا تھا: ”وہ اپنی قسم پہ قائم رہا اور اپنی زندگی وقف کردی تاکہ سرخ طیارے سیاہ طیاروں سے تیز اڑ سکیں“۔

کچھ مصنفین بارتینی کو ”بیسویں صدی کی آزاد منش ترین شخصیت“ کہتے ہیں۔ دوسروں کو یقین ہے کہ ”سرخ نواب“ ”پیش رفت“ دوسرے سیارے سے آیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کی تکنیکی پیش رفت پہ قابو پائے رکھے۔

بات جو بھی ہو لیکن ایک چیز واضح ہے : نابغہ دونائیو بارتینی نے انسانوں کو ستاروں سے کچھ ہی دور رہ جانے میں مدد دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).