بادشاہ سلامت کا قصیدہ درباری پڑھتے ہیں، صحافت کا فریضہ کچھ اور ہے


میڈیا کے بارے میں جمہوری کہلانے والی حکومت کا یہ رویہ افسوسناک ہے۔ اس کی مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستانی میڈیا میں یہ مزاحمت دن بدن کمزور پڑ رہی ہے۔ یہ صورت حال شہریوں کی آزادی، انصاف کی فراہمی اور جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے نئے اندیشوں کو جنم دیتی ہے۔ میڈیا پر حکومت کے کنٹرول کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی یہ ’تفہیم‘ ہے کہ وہی اس ملک کو درست راستے پر ڈال سکتے ہیں باقی سب لوگ مفاد پرست اور بدعنوان ہیں۔

جو شخص بھی اس ’فہم‘ سے انکار کرے یا اس کی اصابت تسلیم نہ کرے، اس کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے۔ عمران خان بزعم خویش پاکستانی عوام کا مسیحا بننا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کے لئے مکمل اختیارات کا تقاضہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سنبھالنے کے فوری بعد اٹھارویں ترمیم کے خاتمہ اور صدارتی نظام کے محاسن پر مباحث کا آغاز کیا گیا تھا۔ جب ان دو امور پر پوری قوم کی طرف سے مزاحمت سامنے آئی تو اب مطلق العنان چینی صدر جیسے اختیارات کی خواہش سامنے لائی گئی ہے تاکہ ہر قسم کی سیاسی مخالفت کا خاتمہ کیا جاسکے۔

حکومت کی اس بدحواسی اور غیر روایتی اختیارات کی خواہش کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کوئی تبدیلی لانے، معاملات درست کرنے اور معاشی سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ خارجہ محاذ پر کشمیر کے معاملہ پر ہر آنے والے دن کے ساتھ حکومت کی پسپائی، اس کی کمزور اور ناکام سفارتی حکمت عملی کی داستان بیان کرتی ہے۔ لیکن عمران خان کی حکومت ان ناکامیوں کی وجوہ سمجھنے اور ان سے نمٹنے کی بجائے، آزادی رائے کا گلا دبا کر اور مخالفین کو ملک دشمن اور بدعنوان قرار دے کر اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کی ناکام کوشش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کے پاس اس وقت فوج کی حمایت کے سوا کوئی دوسرا ترپ کا پتہ نہیں۔ تاہم اگر ناکامیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور معاشی احیا کا کوئی قابل عمل منصوبہ سامنے نہ لایا جا سکا تو اس ہم آہنگی کو برقرار رکھنا بھی آسان نہیں رہے گا۔

فوج نے اس سال حکومت کی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے بجٹ میں کمی قبول کر لی ہے۔ حکومت نے کشمیر کے مسئلہ پر سفارت کاری کو جنگ جوئی کا معاملہ بنا کر پاکستان کی بقا کا سارا بوجھ فوج پر ڈال دیا ہے۔ قرضوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد اگر قومی پیداوار اور آمدنی میں زوال کی موجودہ صورت حال برقرار رہی تو اگلے بجٹ میں فوج کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی وسائل کم پڑ جائیں گے۔ لیکن وزیر اعظم اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر جنگ کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے تو عمران خان کلمہ پڑھتے ہوئے محاذ پر توپوں کا سامنا نہیں کریں گے بلکہ فوج کو ہی دشمن سے لڑنا پڑے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت وہ وسائل اور سفارتی و سیاسی زاد راہ فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے جو کسی جنگ کی صورت میں ازحد ضروری ہوتے ہیں۔

پاک فوج کے سربراہ صورت حال کو سنبھالنے کے لئے تاجروں کو دھمکی نما تسلی دینے کے علاوہ ہر سفارتی مشن کا حصہ بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح یہ حکومت کامیابی کا سفر شروع کرسکے۔ لیکن جلد یا بدیر فوج اور اس کے سربراہ کو سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت کے نام پر فوجی حکمرانی کا تماشہ بہت دیر تک نہیں چل سکے گا۔ ملک کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے اس کی بنیاد سول معاملات میں عسکری بالادستی ہی نے استوار کی تھی۔

اب یہ معاملات براہ راست فوج کی نگرانی میں انجام دیے جارہے ہیں۔ اس لئے ناکامیوں کی صورت میں انگلیاں بھی فوج ہی کی طرف اٹھیں گی۔ قومی مفاد کے علاوہ فوج کی شہرت اور وقار کے لئے بھی سول ملٹری تال میل کی موجودہ صورت حال پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔ ورنہ سول حکومت کی طرح فوج کی استعداد اور صلاحیت پر بھی سوال اٹھنے لگیں گے۔

اس دوران وزیر اعظم چین سے واپس آکر ایران اور سعودی عرب میں ثالثی کے مشن پر روانہ ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ لگتا ہے ایسے ’مشن امپاسیبل‘ کی ذمہ داری لینے والے عمران خان اب صرف لنگر خانوں کا افتتاح کرنے کے لئے ہی ملک آیا کریں گے۔ ایسے بادشاہ سلامت کی قصیدہ گوئی درباری کیا کرتے ہیں، صحافت کا منصب اور فریضہ کچھ اور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali