بادشاہ سلامت کا قصیدہ درباری پڑھتے ہیں، صحافت کا فریضہ کچھ اور ہے


پاکستان کی داخلی سیاست ہو، معاشی معاملات ہوں، کشمیر سے متعلق صورت حال ہو یا معاشرے میں پیدا ہونے والا افتراق، ملک اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ تاہم ملک کے حکمران اپنے طرز عمل، گفتگو اور طریقہ کار سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ حالات ان کے قابو میں ہیں اور بحران یا پریشانی کی بات کرنے والے لوگ ملک دشمن عناصر ہیں جو ملکی مفاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ حکمرانوں کی یہی بے حسی دراصل اس وقت ملک کو درپیش مسائل میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

قوموں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ مسائل سے نبرد آزما بھی ہوتی ہیں لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب کوئی قوم درپیش مسائل سے آگاہ ہو اور ان کے حل کے لئے متوازن اور قابل عمل حکمت عملی تیار کرسکے۔ پاکستان کی صورت حال پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں میں اس شعور کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور قیادت کے منصب پر فائز لوگوں کا کہنا ہے کہ صبر سے کام لیا جائے اور عمران خان جیسے ’ناد ر روزگار‘ قائد کے ہوتے کسی کو ’گھبرانے کی ضرورت‘ نہیں ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا کے حوالے سے ایک کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے اطلاعات و نشریات کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اسی مزاج کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے عمران خان کو زیرک اور مؤثر لیڈر قرار دیتے ہوئے یا تو اقوام متحدہ کی اسی تقریر کا قصیدہ بیان کیا جسے اب ماضی کا حصہ ہوئے بھی دو ہفتے ہونے کو ہیں۔ یا پھر ملکی میڈیا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ’حکومت پر ضرور تنقید کریں کیوں کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن حکومت پر نکتہ چینی کی آڑ میں قومی مفاد کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے‘ ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب درجنوں ٹی وی چینلز پر ملک کے بارے میں منفی خبریں نشر ہوں گی تو قوم پر بھی مایوسی طاری ہوگی اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی پریشان اور بدحواس ہوں گے۔ اس لئے میڈیا اور صحافیوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

فردوس عاشق اعوان پہلی سرکاری عہدیدار نہیں ہیں جو حکومت اور ریاست میں فرق کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکمرانوں کی بے اعتدالیوں کی نشاندہی کو قومی مفاد پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔ ہر آمرانہ دور حکومت میں سرکاری عمال یہی رویہ اختیار کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ کبھی جمہوری روایت مستحکم نہیں ہوسکی، اس لئے اس کے سب ادوار میں میڈیا کسی نہ کسی طرح جبر و استبداد اور سرکاری پابندیوں کا شکار رہا ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں سابق فوجی حکمران جنرل (ر) ضیا الحق کا دور حکومت اس حوالے سے بدترین دور کہا جاتا ہے جب نہ صرف اخبارات کو شدید پابندیوں اور سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ آزادی اظہار کے لئے احتجاج کرنے والے صحافیوں کو سر عام کوڑے مارنے کی شرمناک روایت بھی قائم کی گئی۔

اطلاعات و نشریات کی مشیر یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’حکومت میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھتی ہے کیوں کہ میڈیا نظریاتی سرحدوں کا امین ہوتا ہے‘ ۔ گویا میڈیا اور اس کے ساتھ وابستہ لوگوں کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی و صوابدید کے مطابق صورت حال کا جائزہ لے سکیں اور قومی مفاد یا اس نظریاتی بنیاد کا تعین کرسکیں جو پاکستان کے لئے ضروری ہے بلکہ اس حوالے سے حکومت کی ہدایت اور رہنمائی میں کام کیا جائے۔

یعنی اگر حکومت مدینہ ریاست کا جعلی نعرہ بلند کرتے ہوئے جھوٹ پر مبنی اسلامی تاریخ اور اخلاقی اقدار کا ایک جابرانہ خاکہ پیش کرے تو اسے تاریخ ساز کارنامہ قرار دیتے ہوئے، قبول کیا جائے اور انہی خطوط پر قوم کو گمراہ کرنے کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اس بھونڈے مقصد کو ’قومی مفاد‘ قرار دے کر اس کے پرچار کا تقاضہ کرنا، استبداد کی بدترین صورت ہے۔ بدنصیبی سے ملک کی موجودہ جمہوری حکومت اسی پالیسی پر گامزن ہے اور ملکی صحافیوں کو جھکانے اور سرکاری پالیسی کا بھونپو بنانے کے ہتھکنڈے اختیارکیے جا رہے ہیں۔

ملک کے صحافی، ماہرین، میڈیا کی قومی و عالمی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے اس وقت پاکستان میں میڈیا کی صورت حال کو ابتر اور افسوسناک بتا رہے ہیں۔ لیکن حکومتی ترجمان پھر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا تقاضہ ہے کہ عمران خان کی مدح سرائی کی جائے اور ان کی لغزشوں کو کامیابی، غلط بیانی کو بہادری اور ناکامی کو غیر معمولی کارنامہ بنا کر پیش کیا جائے۔ حکومت کو جو ریاستی اختیارات اور اقتصادی دسترس حاصل ہے، اسے پوری بے رحمی سے میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

اس کے باوجود خوشامد پسند حکمرانوں کی خود پسندی کا یہ عالم ہے کہ وہ اس سے مطمئن اور خوش نہیں ہیں اور مسلسل مزید ’تابعداری‘ مطالبہ سامنے آتا رہتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان کا تازہ بیان اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ حالانکہ سرکاری میڈیا کے علاوہ نجی ملکیت میں چلنے والے بیشتر میڈیا ہاؤسز کو تحریص یا دھونس کے ذریعے کہیں پوری طرح اور کہیں جزوی طور سے زیر کرلیا گیا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کو لگتا ہے کہ اس کی تعریف میں کمی دراصل ریاستی مفاد سے گریز اور نظریاتی سرحدوں سے انحراف ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali