بلوچستان تباہی و بربادی کے دہانے


بلوچستان میں ہماری اشرافیہ اور حکومت ہمیشہ میرٹ کا لاگ الاپتی نظر آتی ہے۔ لیکن جس طرح میرٹ کے لفظ کی عزت کا جنازہ اس دور میں نکلا ہے اور یہ لفظ جس طرح بدنام ہوا ہے۔ اس کی مثال گزشتہ ادوار میں ملنی مشکل ہے۔ پہلے اگر نا انصافی ہوتی تھی تو نظر آتی تھی اس کے خلاف واویلا ہوتا تھا۔ کورٹ نوٹس لے لیتی اور کچھ نا کچھ انصاف مل جاتا تھا۔ اور اگر نا ملتا تو احتسابی ادارے نوٹس لے لیتے تھے اور یوں غلط کام کرنے والے خوف محسوس کرتے تھے۔

لیکن بلوچستان میں اب ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ جام اصلاحتی کی حکومت کی خوش نصیب جبکہ بلوچستان بطور صوبہ بدنصیب ہے۔ کہ یہاں اپوزیشن کم فہم ہے اسمبلی میں اپوزیشن کے دو ارکان نواب اسلم رئیسانی اور ثناءاللہ بلوچ کے علاوہ کوئی رکن اسمبلی فلور پر حکومتی پالیسوں پر بات نہیں کرتا جس طرح ایک فعال اپوزیشن کا کردار ہونا چاہیے۔ اس وقت کہنے کو تو اپوزیشن کے 24 ارکان اسمبلی ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جیسی اہم کمیٹی بھی اپوزیشن کے پاس ہے۔

یہاں دوسرا بڑا المیہ عوامی سطح پر رائے عامہ بنانے والوں کا قحط ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبے میں کوئی تنقید یا مدلل بحث حکومتی ناقص پالیسیوں پر دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ اور نہ ہی اخبارات میں حکومتی غلط پالسیوں پر مدلل انداز میں تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیا اپوزیشن درپردہ حکومت کے ساتھ مکمل ملی ہوئی ہے یا پھر حالات واقعات سے بے خبر ہے؟ دیکھنے کو جام اصلاحاتی خود کو پڑھا لکھا متعارف کراتے ہیں، لیکن صوبے کی تاریخ کی بیڈ گورننس متعارف کرانے والے حکمرانوں میں سہرفرست ہیں۔

اور اپنے اقدامات سے صوبے کے انتظامی امور کو شدید نقصان پہنچایا رہے ہیں۔ جام اصلاحتی کے دور میں نظام بجائے مضبوط کرنے کہ کمزور تر ہوگیا ہے۔ شاید اس قدر ماضی کی کسی بھی کمزور یا کرپٹ ترین حکومت میں نہیں ہوا۔ بظاہر یوں لگتا ہے۔ یہاں سب ملے ہوئے ہیں ورنہ میں نے بہت پہلے ایک کالم جس میں محکمہ تعلیم میں کرپشن اور بے ضابطگیوں کی بڑی تفصیل سے پیشگی نشاندہی کرتے ہوئے انٹرویوز اور ٹیسٹ سے قبل خبر دے چکا ہوں جو ریکارڈ پر موجود ہے، کہ یہاں جوئنر ترین کمیٹی کے ذریعے ہیراپھیری کا منصوبہ بنالیا گیا ہے، لیکن حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی خاموش رہی۔ آج وہی تعیناتیاں میری تحریر کی عین مطابق ہیراپھیری کی نظر ہوئیں اور اب اسمبلی فلور پر اپوزیشن کے ساتھ حکومتی ارکان بھی بول پڑے ہیں۔ کہ من پسند افراد کو بھرتی کیا گیا ہے، لیکن۔

اب پچھتاوے کیا ہوت،

جب چڑیاں چگ گیئں کھیت۔

کیا خوب ہوتا کہ اس وقت اسمبلی کا کوئی رکن اسمبلی میں سوال اٹھاتا کہ یہ الزام ہے، حکومت اس کی تردید یا تصدیق کرے، تو آج ریکارڈ پر سب کچھ ہوتا۔ اپوزیشن کا حالیہ احتجاج دراصل عوام کا ان پر بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔ جس نے ارکان اسمبلی کو مجبور کر دیا ہے۔ محکمہ سکینڈری ایجوکیشن کے حالیہ بھرتیوں میں بے ضابطگیوں اور من پسند افراد کو تعینات کرنے کے ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں۔ اب باعث تشویش امر یہ ہے کہ جام اصلاحاتی تقریبا 10 ہزار ٹیچر مزید اس کرپٹ ترین محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن کے اسی کرپٹ ترین ٹیم کے ذریعے کر رہی ہے جو مخصوص 379 نان ٹیچنگ سٹاف کی بھرتی میں ایمانداری کا مظاہرہ نہ کرسکی۔

اور کرپشن کی انتہا کرتے ہوئے کلرکل اسٹاف اور کلاس فور کے اسامیوں پر میرٹ کا گلہ گھونٹ دیا۔ اس کرپشن کی وجہ سے نظام کو نقصان تو ہوا ہے لیکن اس قدر نقصان پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے جو کہ مستقبل قریب میں ان دس ہزار ٹیچرز کے معاملے میں ہمیں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ میں ایک بار پھر تقریبا 10 ہزار ٹیچرز کے حوالے سے با اثر حلقوں اور اپوزیشن کے سامنے باوثوق ذرائع سے ملنے والے کچھ تحفظات رکھ رہا ہوں۔ کہ محکمہ تعلیم اور دیگر محکموں نے من پسند ٹیسٹنگ کمپنیوں کو اپنے ساتھ ملا کر بھرتی کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور ٹیسٹنگ سروس ایک ڈرامہ ہے جس سے ضابطگیوں کے عمل کا آدھا بوجھ ان کمپنیوں کے کندھوں پر ڈال کر اپنے اوپر ذمہ داریاں لینے اور احتساب کے عمل سے بچنے کے لئے اپنے مقصد کی گولی بندوق میں ڈال کر احتسابی عمل سے محفوظ ٹیسٹنگ کمپنی کے کندھے پر چلانے کافیصلہ کر لیا ہے۔

بھرتیوں میں میرٹ ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ بھرتیاں پہلے محکمے خود کرتے تھے۔ پھر ٹیسٹنگ ادارے آ گئے اور نیشنل لیول پر ایک ادارہ این ٹی ایس وجود میں آیا اور بھرتیاں این ٹی ایس کے ذریعے ہونے لگیں۔ اور پھر مشروم کی طرح ٹیسٹنگ سروس وجود میں آ گیئں۔ جنہوں نے میرٹ کا لبادہ اوڑھ کر پاورفل لوگوں سے بارگیننگ شروع کر دی کہ آپ ہمیں بزنس دیں ہم آپ کے بندوں کو پاس کر دیں گے۔ کیونکہ ہم نے ٹیسٹ کے پیسے آپ سے نہیں بلکہ امیدواروں سے لینے ہیں۔

اکثر ٹیسٹنگ کمپنوں نے سکریڑیز کہہ دیا ہے کہ 100 میں سے 70 امیداور وزیر، سکریڑیزں ڈی جی اور ٹیسٹنگ کمپنی میں تقسیم کیا جائے گا۔ پھر انٹرویوز تو صرف بہانہ ہوں گے۔ مجھے ایک ڈی جی نے بتایا کہ پچھلے دور میں ہمارے وزیر نے اسی طرح ایک ٹیسٹنگ سروس سے مک مکا کرکے اپنے بندے رکھوائے۔ جس کا میں گواہ ہوں اب یہ ظلم محکمہ تعلیم میں ہونے جا رہا ہے اور اس کے لیے ٹھپہ سیکرٹریوں کی ڈیوٹی لگا کر لیا جائے گا۔ شنید میں آیا ہے کہ ٹیسٹنگ سروس ٹیسٹ لے گی اور سیکرٹریز حضرات سنٹرز میں نگرانی کے فرائض انجام دیں گے اور پیپر ٹیسٹنگ سروس پہنچ جائیں گے جہاں ان لوگوں کے پیپر کہ جن کی سفارش ہوگی یا پھر لین دین ہوا ہوگا وہ کامیاب قرار دیے جائیں گے۔

جبکہ غریب کو ٹیسٹنگ سروس میں ناکامی کا لولی پاپ تھما دیا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا طریقہ کار ہوگا کہ جس کے ذریعے مخصوص امیدواروں کا پرانا پیپر نکال کر نیا حل شدہ پیپر نہیں رکھا جائے گا۔ میری تو تجویز ہوگی کہ جس طرح حقوق بلوچستان میں اساتذہ کی بھرتیاں ہوئی تھیں وہی طریقہ اختیار کیا جائے اور سیکرٹری ہی اس ضلع کے پیپر اپنی نگرانی میں چیک کروائے۔ سکریڑی کو ذمہ داریوں سے بری ذمہ نہ کریں جو ایک ٹیچر کی طرح صرف امتحان ہال میں گشت کرنے کے لئے صوبے کے دور و دراز اضلاع میں جاکر صرف ٹی اے ڈی اے لے۔

حزب اختلاف، سول سوسائٹی سے گزارش ہے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ اب بھی ٹائم ہے۔ اور محترم سیکریٹریز صاحبان سے گزارش ہے کہ وہ اس کا چارہ نہ بنیں اپنے خدشات متعلقہ لوگوں تک پہنچائیں ورنہ تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ آخر میں ان لوگوں سے بھی درخواست کروں گا کہ جو درحقیقت ملک سے محبت کرتے ہیں کہ خدارا بلوچستان کو تباہی سے بچانے کے لئے سامنے آنے میں دیر نہ کریں کیونکہ حکومت 5 سال کی جبکہ ملکی پالیسی کئی سالوں پر محیط ہوتی ہے اور اس چوری کی عمل کو روکنے میں کردار ادا کریں، تاکہ پڑھا لکھا بلوچستان پڑھے لکھے پاکستان کے ہم قدم ہو سکے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).