روہی کے لوگ کتنے مسافر نواز ہیں


سندھ کے ریگستان ”تھر“ کی خبریں گاہے گاہے میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جہاں ایک طرف تو تھر کے باسیوں کی حالت زار دیکھ کے دکھ ہوتا ہے، وہیں سندھ حکومت کے کچھ اقدامات دیکھ کے طمانیت کا احساس بھی ہوتا ہے کہ وہاں اچھی یا بری حکومت تو ہے جو کچھ نہ کچھ ردعمل تو دیتی ہے۔

لیکن ہمارے چولستان (روہی) میں یہ دونوں باتیں ناپید ہیں۔ نا تو یہاں کی خبریں میڈیا میں جگہ بنا پاتی ہیں اور نہ یہاں حکومت اپنا کوئی وجود ظاہر کرتی ہے حالانکہ چولستان کے باشندوں کے حالات زندگی بھی تھر کے باسیوں سے چنداں مختلف نہیں ہیں۔

چولستان ڈویژن بہاولپور میں چھیاسٹھ لاکھ پچپن ہزار ایکڑ پر مشتمل لق و دق صحرا کا علاقہ ہے جس کو مقامی لوگ روہی کہتے ہیں، خواجہ غلام فرید نے کہا تھا:

روہی رنگ رنگیلڑی اے

اس رنگ رنگیلڑی روہی کے پھیکے اور ماند پڑتے رنگوں پر توجہ دینا اور یہاں کے مسائل اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔

روہی بظاہر جتنی سادہ اور خوبصورت ہے یہاں زندگی گزارنا اس سے کہیں زیادہ کٹھن کام ہے جس کا ادراک وہی لوگ کر سکتے ہیں جو نسل در نسل یہاں زندگی گزار رہے ہیں لیکن روہی کی محبت ان کے خون میں اس درجہ شامل ہے کہ وہ روہی کو چھوڑ کر کہیں اور رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اگر ہم روہی کے مسائل پر بات کریں تو سب سے اہم مسئلہ یہاں پانی کا ہے بارش ہو جائے تو روہی کے لوگ اپنے سارے غم بھول کر بچوں کی طرح خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہاں زندگی کا دارومدار پانی پہ ہے۔ پانی سے محبت یہاں کے لوگوں کی جینز میں شامل ہے۔ بارش نہ ہو تو ہجرت یہاں عام سی بات ہے۔

ہم دشت کے باسی ہیں اے شہر کے لوگو

یہ روح پیاسی ہمیں ورثے میں ملی ہے

بارش اگر ہو جائے تو روہی کے رنگ نکھر جاتے ہیں اور زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بارش کا پانی انسان اور جانور ایک ہی ٹوبے (روہی میں پانی کا تالاب) سے پیتے ہیں۔

یہاں کسی حکومت نے کوئی واٹر پوائنٹ دینے کی زحمت نہیں کی حالانکہ یہاں کی آبادی کو پانی کی ضرورت کسی بھی علاقہ سے زیادہ ہے۔ اندرون روہی نہیں تو روہی کے ساتھ ساتھ جو آبادی ہے وہاں یہ سہولت دی جا سکتی ہے جہاں سے روہی اور ابادی کے لوگ یکساں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

یہاں کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ صحت کا ہے۔ صحت کے حوالے سے کبھی یہاں توجہ نہیں دی گئی یہاں روہی کے لیے کوئی اسپتال نہیں بنایا گیا کچھ ڈسپنسریاں ہیں تو وہ بھی ویران ہیں دوائیاں ناپید ہیں اور عملہ غائب رہتا ہے لوگ اب بھی گولی ٹکی اور ٹوٹکوں سے علاج کرتے ہیں یہاں اب بھی بچے اسپتالوں سے دور صحرا اور ٹوبوں پہ جنم لیتے ہیں۔ یہاں ہر سال سیکڑوں مویشی ویکسینیشن نہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

یہاں تعلیم کی صورت احوال صحت سے بھی بدتر ہے بہت سارے بچے زندگی میں ایک بار بھی اسکول نہیں جاتے وہ الف ب کی بجائے جانوروں کو ہانکنے کی آوازوں سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ روہی کا ایک اور اہم مسئلہ آمدورفت کا ہے یہاں سڑکیں بہت کم ہیں، جو ہیں ان کی حالت بھی نہایت خستہ ہے۔ نئی سڑکیں بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اس کی ایک مثال مروٹ سے خیرپور چلنے والی بس کا روہی کے کچے راستے پر روزانہ کا سفر ہے۔

روہی کے لوگوں کا ایک دیرینہ مطالبہ چولستانی زمینوں کے مالکانہ حقوق کا ہے جس کے لیے متعدد بار درخواستیں بھی لی گئی ہیں لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پہ ابھی تک الاٹمنٹ نہیں ہوسکی اور نا ہی ہوتی نظر آرہی ہے۔ روہی سے لکڑیاں کاٹنے سے ڈی فارسٹیشن ہو رہی ہے اس سے نہ صرف روہی کا حسن بلکہ مویشیوں کا چراہی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

مختصرا یہ کہ روہی ایک بہت خوبصورت علاقہ ہے لیکن یہ اس دور میں بھی بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہے یہاں کے بے پناہ مسائل ہیں اور تاحال توجہ طلب ہیں کاش کوئی روہی پہ ترس کھائے اور اس کی دن بدن دگرگوں ہوتی حالت زار پہ آواز اٹھائے۔

بجھتے ہوئے دلوں پہ چھڑکتے ہیں روشنی

روہی کے لوگ کتنے مسافر نواز ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments