مسلم معاشروں کا بانجھ پن


ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی عربوں کے فلسفی کے حوالے سے مشہور ہیں۔ وہ اسلامی ارسطا طالیسی مکتبہ فلسفہ کے بانی ہیں اور منطق، ریاضی اور طبیعیات میں اپنے علمی کارناموں کی وجہ سے وہ مسلم سائنسدانوں کی فہرست میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ الکندی کے سائنسی کارنامے کی ایک طویل فہرست ہے۔ تاہم اس کا انجام بہت کسمپرسی کی حالت میں ہوا۔

عباسی خلیفہ المتوکل جب مسند خلافت پر فروکش ہوا تو الکندی کا دور ابتلا شروع ہو گیا۔ نئے خلیفہ کو قائل کیا گیا کہ اس فلسفی کے عقائد بہت خطرناک ہیں۔ فلسفہ دشمن مذہبی افراد کی لگائی بجھائی نے جلد ہی خلیفہ المتوکل کو الکندی کے ذاتی کتب خانے کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کرنے پر مجبور کیا۔ ساٹھ سالہ فلسفی کو سر عام پچاس کوڑے لگانے کی سخت سزا بھی دی گئی۔ مؤرخین کے بقول وہ مسلم فلسفیوں کے اس پہلے گروہ کا رکن تھا جیسے مذہبی کٹر پن کا شکار بننا ہڑا۔ محمد ابن زکریا الرازی شعبہ طب میں اس درجہ کمال کو پہنچے کہ ان کے کارناموں کی بدولت انہیں “جالینوس عرب” بھی کہا جاتا ہے۔

وہ ماہر طب ہونے کے ساتھ ایک روشن خیال اور آزاد منش فلسفی بھی تھا۔ ان کے مابعد الطبیعیاتی نظریات سے اختلاف رکھنے والوں نے کسی دلیل اور منطق کی بجائے سیدھا کفر و الحاد کا تیر بہدف نسخہ آزمایا اور انہیں معتوب قرار دے ڈالا۔ ان کے مخالفین نے امیر شہر کے کچھ یوں کان بھرے کہ وہ بھڑک اٹھا اور طیش کے عالم میں یہ حکم صادر کیا کہ الرازی کے سر کو اس کی کتاب سے اتنا مارا جائے کہ اس کا سر ٹوٹ جائے یا پھر اس کی کتاب۔ جلاد صفات اہل کاروں نے اس بے دردی سے کتاب الرازی کے سر پر ماری کہ ان کی بینائی ہی چلی گئی۔ الرازی کی بینائی کیا گئی ان کے اندر جینے کی خواہش ہی جسیے مر گئی ہو اور تھوڑے عرصے بعد بے بسی کی حالت میں وہ راہی ملک عدم ہو گئے۔

ابو علی الحسین ابن سینا ایک غیر معمولی ذہین شخص تھا۔ دس سال کی عمر میں اس نے قرآن شریف حفظ کیا اور سترہ برس کی عمر میں وہ ایک تسلیم شدہ طبیب کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکا تھا۔ دو سال کے قلیل عرصے میں اس نے ارسطو کی ما بعد الطبیعات پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس نے فلسفہ، منطق اور طب کے شعبوں میں بے پناہ کام کیا اور ان کی تبحر علمی کا ایک عالم معترف ہے۔ ابن سینا عقلی استدلال پر زور دیتا تھا۔ وہ کچھ عرصہ امیر ہمدان کے دربار سے منسلک رہا اور وہاں مذہبی کٹر پن ذہن کے حامل کچھ درباریوں سے بحث اس نہج تک پہنچ گئی کہ وہ ابن سینا کے جان کے در پے ہو گئے۔ اپنی جان بچانے کے لیے انہیں کئی ماہ تک روپوشی کی زندگی گزارنا پڑی۔ اپنے فلسفیانہ اور عقلی نظریات کی بنا پر انہیں کئی بار سزا سے بچنے کے لیے فرار ہونا پڑا۔ ابن سینا کے نظریات سے مزین کتابوں پر پابندی لگائی گئی۔ مذہبی عقائد اور سائنسی منطق کے درمیان امتزاج کی کوشش کی وجہ سے انہیں بار بار مذہبی طبقے کی ناراضی اور غصے کا شکار ہونا پڑا۔ انہیں بدعتی کہا گیا اور قدامت پرست حلقوں میں ابن سینا کے خلاف لگائے گئے فتوؤں کی گونج صدیوں تک گونجتی رہی۔

ابو الولید محمد ابن رشد ازمنہ وسطٰی کا مشہور و معروف فلسفی تھا جس پر ان کے نظریات کی وجہ سے کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے۔ ابو یوسف جب قرطبہ کا حکمران بنا تو اس نے منطق اور سائنس کے مطالعہ کو ممنوع قرار دیا اور ابن رشد کا قرطبہ میں داخلہ بند کر دیا۔ اس کی بیش تر کتابوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ فلسفی، مورخ اور ماہر عمرانیات ابن خلدون بھی نا مساعد حالات سے گزرا۔ اس سے اختلاف روایتی اور قدامت پسند سوچ کے حامل عناصر کرتے رہے اور اس کی موت کے بعد بھی اس کی مخالفت کا عمل جاری رہا اور اس کی قبر کو مسمار اور اس کی کتابوں کو جلانے کے صلاح مشورے دیے جاتے رہے۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی تصنیف ’’مسلمان اور سائنس‘‘ میں ان پانچ شخصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ کیسے فلسفہ و سائنس کے ان عظیم ناموں کو قدامت پسند سوچ نے اپنے غیظ و غضب کا نشانہ بنایا؟ ازمنہ وسطٰی میں مسلم فلسفیوں اور انہیں معتوب و ملعون قرار دینے کا تفصیلی احوال سید امیر علی نے اپنی تصنیف “Spirit of Islam” میں بھی رقم کیا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں ان مسلم فلسفیوں اور سائنسدانوں کے نظریات و خیالات بھی متروک ہو چکے ہیں کیونکہ سائنس و فلسفے کی دنیا میں کسی نظریے اور خیال کو دوام نہیں۔ یہ تغیر پذیر شعبے ہیں جہاں ہر آن ایک نیا نظریہ اور ایجاد عقل و شعور کو مسخر کر نے کے لیے وارد ہوتا رہتا ہے۔

ان مسلم فلسفیوں اور سائنسدانوں کا ذکر آج اس لیے برمحل ہے کہ نوبل پرائز کمیٹی نے سائنس اور طب کے شعبوں میں حال ہی میں محیر العقول کارنامے اور حیرت انگیز ایجادات کرنے والے ذہنوں کو انعام سے نوازنے کااعلان کیا ہے۔ دنیا بھر میں سب سے اعلیٰ اعزاز اور انعام سمجھے جانے والے نوبل پرائز کا جب موجودہ سال کے لیے اعلان کیا گیا تو یہ پھر مغرب اور ترقی یافتہ دنیا کے ان سائنسدانوں کے نام رہا، جن کے شب و روز تحقیق و تخلیق کے عظیم و ارفع کام میں صرف ہو رہے ہیں۔ میں نے اس کام کو اس لیے ارفع کہا کہ ان کی تخلیقات و ایجادات نے نوع انسانی کو اس طرح آسودہ و آرام دہ کر دیا کہ اج ان کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی محال ہے۔

تخلیق و ایجاد کا یہ بہتہ چشمہ مغرب اور ترقی یافتہ دنیا میں پوری روانی سے ان معاشروں کو سیراب کر رہا ہے۔ فکر و آگاہی کی آزادی سے لے کر سیاسی آزادی کا ماحول اس کلچر کو فروغ دے رہا ہے جو علم، تحقیق اور تخلیق کی عمارت کی بنیادوں میں مضبوطی و پائیداری فراہم کرتی ہیں۔ اس کے بالمقابل مسلم دنیا اس وقت اپنے زوال کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ قدامت پسندی، انتہا پسند رجحانات سے لے کر سیاسی فکر کی آزادی کا ناپید ہونا ایسے معاشروں کو جنم دے چکا ہے کہ جہاں فقط تقلید پسندی کا منہ زور ریلا اپنے جوبن پر ہے۔ تحقیق و تخلیق کے سوتے صدیوں سے مسلم معاشروں میں خشک ہو چکے ہیں اور ان خشک سوتوں سے اٹھنے والی دھول مٹی سے ان معاشروں کے چہرے اس طرح اٹ چکے ہیں کہ اب کسی عظمت رفتہ کا نشان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).