منطقی جبر اور اقبال کا عقل و عشق


کئی بار ایسا ہوا کہ کسی لیکچر یا ٹریننگ کے دوران جونہی تنقیدی فکر کی اہمیت پر بات کرنا شروع کی تو جواب ملا کہ ہم تو اہلِ عشق ہیں ہمارا عقل سے کیا تعلق؟ ہم تو ہر معاملے میں بے خطر کُود پڑنے والے ہیں، ہمیں لبِ بام تماشا کرنے والی بزدل قوم نہ بنائیں۔ ہم مقامِ عقل سے صدیاں ہوئیں آسانی سے گزر آئے اور اب مقامِ عشق میں کھوئے ہوئے ہیں۔ المختصر، کئی بار تنقیدی فکر کی اہمیت پر بات کرنے کے بعد سوال و جواب کے سیشن میں اقبال کے ہاں عقل و عشق کے باہم دست و گریبان ہونے کا تذکرہ آیا اور احباب نے تنقیدی فکر کا راستہ اختیار کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ ہم اہلِ عشق ہیں اور عقل و عشق ایسی دو تلواریں جو ایک نیام میں نہیں رکھی جاسکتیں۔

ہمارے ہاں ایسے تصورات عام ہیں کیونکہ یہاں ابھی تک یہ سمجھا جاتا اور سمجھایا جاتا ہے کہ اگر آپ ایک فکری اصول اپناتے ہیں تو آپ کو وہ اصول رد کرنا پڑتا ہے جسے اپنائے گئے اصول کی ضد سمجھا جاتا ہو۔ اگر آپ عقل کو مانتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ جذبات کی نفی کریں۔ اگر آپ جذبات کو مانتے ہیں تو آپ عقل کو نہیں مان سکتے۔ اسی طرح اگر مارکس روٹی کو انسان کی سب سے بڑی ضرورت سمجھتا ہے تو وہ جنس کو سب سے بڑی ضرورت نہیں مان سکتا اور اگر فرائیڈ جنس کو بنیادی جذبہ مانتا ہے تو وہ بیک وقت کسی اور ضرورت کو اس سے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا۔

کلاسیکی فکر میں اس اصول کا نتیجہ ہمیشہ علمیاتی جبریت (epistemological determinism) کی صورت میں نکلتا رہا ہے۔ اس اصول کو فلسفہ و فکر کی زبان میں واحدیت (monism) کہلاتا ہے جسے مغربی کلاسیکی فکر میں وہی درجہ رہا ہے جو ابراہیمی مذاہب میں توحید کو حاصل ہے۔ یونان میں تشکیل پانے والے مغربی فکری نظام میں واحدیت کا اصول مفکرین سے یہ تقاضا کرتا رہا ہے کہ وہ کسی ایک اصول کی مدد سے کائنات کی وضاحت کرسکتے ہیں۔ اسی فکری نظام میں اس بنیادی اور احسن سمجھے جانے والے اصول کی ضد تکثریت (pluralism) سمجھی جاتی رہی ہے جو کائنات کی ایک سے زیادہ بنیادی (ultimate) اور مساوی طور پر غیر ماخوذ و غیر مشتق (underived) اصولوں کی مدد سے وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تکثیریت کو واحدیت کی ضد سمجھے جانے اور واحدیت کو احسن و مقبول سمجھنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ واحدیت کو مغربی فکر میں وہی مرکزی و پسندیدہ مقام حاصل رہا ہے جو ابراہیمی مذاہب میں توحید کو تو واحدیت کی ضد تکثریت کو مغربی فکر میں وہی ناپسندیدہ مقام حاصل رہا ہے جو ابراہیمی مذاہب میں اصنام پرستی یا ایک سے زیادہ خداؤں کی عبادت کو رہا ہے۔

یہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ عام طور پر واحدیت کی ضد تکثریت کو نہیں بلکہ ثنویت یا دُوئی (dualism) کو سمجھا جاتا ہے اور ابراہیمی مذاہب اگرچہ خود کو توحید پسند کہتے ہیں مگر دراصل یہ ثنویت پسند ہیں کیونکہ وہ کائنات کی وضاحت ایک کی بجائے دُو باہم متصادم اصولوں کی مدد سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ابراہیمی مذاہب میں خیر کا سرچشمہ خُدا کو جب کہ شر کا سرچشمہ شیطان کو سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ بات فی ذاتہ بحث طلب ہے کہ ابراہیمی مذاہب نے ثنویت کا اصول مغربی فلسفے سے اخذ کیا یا پھر مجوسیت سے۔ یا پھر مغربی فکر ابراہیمی مزاج کی قائل رہی تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ دو اصولوں کو ایک دُوسرے کی ضد قرار دے کر ایک کو مطلق خیر اور دوسرے کو مطلق شر قرار دینے کی رسم واحدیت کے نام پر ثنویت پسندی سے شروع ہوئی جو ایرانی پیغمبر زرتشت، کلاسیکی یونانی فکر اور ابراہیمی مذاہب کے گہرے رشتوں کا پتہ دیتی ہے۔ واحدیت کے روپ میں ثنویت کے علاوہ ابراہیمی مذاہب اور کلاسیکی یونانی فکر کے درمیان ایک اور گہرا تعلق بھی موجود ہے۔ وہ تعلق یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب اور کلاسیکی مغربی (یونانی) فکر دونوں کا آغاز اساطیری و دیومالائی کثرت پسند مذاہب کے خلاف بغاوت سے ہوتا ہے اور یہ وہ موضوع ہے جو فی ذاتہ سیر حاصل گفتگو کا متقاضی ہے۔

Henry Bergson

ان چند بنیادی باتوں کو سمجھنے کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آئیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کائنات کی وضاحت دو متصادم اصولوں کی مدد سے کرنا اور پھر ایک کو احسن سمجھ کر اپنانا، اس کی مدح سرائی کرنا اور دُوسرے کو قبیح سمجھ کر رد کرنا اور تمسخر اڑانا اسی علمیاتی جبریت کا نتیجہ ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔ یہ اسی اصولی جبر کا ہی نتیجہ ہے کہ اگر آپ عقل اور جذبات (عشق) کو ایک دوسرے کی ضد قرار دیں تو آپ کو ان دونوں میں سے ایک کو احسن قرار دے کر قبول اور دوسرے کو قبیح قرار دے کر رد کرنا پڑے گا اور اقبال بھی جب عقل و عشق کو ایک دوسرے کی ضد قرار دیتے ہیں تو وہ کسی الوہی حکم کے تحت نہیں بلکہ یونانی مفکرین کے طے کردہ کلاسیکی فکری اصول کے علمیاتی جبر کے ہاتھوں مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ عقل اور جذبات کو ایک دوسرے کی ضد قرار دینا اور پھر ایک کو پسند اور دوسرے کو یکسر رد کرنا کلاسیکی اصولوں کی روشنی میں منطقی مجبوری تو ہوسکتی ہے مگر یہ ضروری نہیں عقل و جذبات حقیقت میں بھی ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہوں۔

واضح رہے کہ ہم یہاں عقل کی ضد کے طور پر جذبات کی اصطلاح اس لئے استعمال کررہے ہیں کہ مغرب میں عقل و عشق کی جگہ عقل اور جذبات کو ایک دوسرے کی ضد سمجھا جاتا رہا ہے اور یہاں جسے ہم عشق کہتے ہیں وہ دراصل جذبات ہیں اور یہ جذبات یا عشق کوئی لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا والا عشق نہیں بلکہ علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

اس بات کو ہم برگسن کے فلسفے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اقبال کے ہاں عقل و جذبات کا فلسفہ (جسے رومی کی مدد سے اسلامی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے اقبال نے عقل و عشق کے فلسفے کا نام دیا ) بہت حد تک برگسن کے فلسفہ وجدان (intuition) سے مستعار لیا ہوا ہے۔ برگسن کے نزدیک وجدان ایک سریع الرفتار اور ہر دم مستعد صلاحیت ہے جو ایک جست میں بحر ِ علوم کا قصہ تمام کرتے ہوئے معاملات کے پار اور ان کی تہہ میں اتر جاتی ہے۔ برگسن کے نزدیک عقل باہر سے دیکھتا ہے جبکہ وجدان اندر سے۔ عقل حقیقت کے سمندر کو پرندے کی طرح اوپر اوپر سے دیکھتا ہے اور وجدان اس سمندر کو مچھلی کی طرح اندر سے دیکھتا ہے۔

برگسن کے فلسفہ وجدان پر برٹرینڈ رسل نے اپنے مضمون ”تصوف اور منطق“ (Mysticism & Logic) میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ برگسن جسے وجدان کہہ رہے ہیں، وہ دراصل (جبلی ) جذبات ہیں اور خارجی کائنات کا علم حاصل کرنے کے لئے جذبات پر کبھی انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی بیسویں صدی میں یہ بحث کہ کائنات کا علم حاصل کرنے کے عقل بہترین ذریعہ ہے یا جذبات اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ جسے وجدان کہہ کر علم حاصل کرنے کی پُر اسرار اور الوہی صفت بتایا جاتا ہے، وہ دراصل جبلت اور جذبات ہیں اور اس وقت تک یہ بالکل واضح تک تھا کہ جذبات علم حاصل کرنے کا قابلِ اعتبار ذریعہ نہیں ہوسکتے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2