گٹکے کے خلاف آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے


حال ہی میں سندھ اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں گٹکے کی خرید و فروخت اور کھانے پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ اور جو اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑا جائے، اس پہ پانچ لاکھ جرمانہ عائد کیا جائے، اور ساتھ ہی سات سال کی قید بھی دی جائے۔ گٹکا جو کہ ایک نشہ آور چیز ہے، یہ جان لیوا بیماری سرطان کا باعث بنتی ہے۔ گلے اور منہ کا سرطان زیادہ تر اسی کے باعث ہوتا ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں لوگ خاص کر نوجوان اسے بڑے فخر سے استعمال کرتے ہیں۔ گٹکا کئی اقسام میں مختلف چھوٹے بڑے دکانوں پر دستیاب ہے۔ جیسا کہ 2100 مین پڑی، سفینا، ظفری وغیرہ۔ یہ اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ ایک لمحہ اسے کھلی فضا میں رکھ دیا جائے تو کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس بات ہی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گٹکا انسانی صحت کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔

جوانی کے نشے میں ڈوبے نوجوان، اس بات کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ والدین کا کہا مانے بغیر اپنی من مانی کیے جاتے ہیں۔ نتیجے میں خود تو اذیت بھگتتے ہیں، ساتھ ہی والدین اور بہن بھائی بھی دکھ سہتے ہیں۔ اپنی جیب خرچی سے یہ زہر خرید کر، بڑے فخر سے نوجوان اسے کھاتے رہتے ہیں اور ہر وقت ان کے منہ میں چھالے ہونے کی شکایت رہتی ہے۔ اس گٹکے کا نشہ بھی اتنا برا ہے کہ کچھ دن کھانے اور چبانے کے بعد، اس کی طلب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بہت جلد یہ شوق عادت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

صاف اور چمکیلی دیواروں اور رستوں پہ پہلے ہم جو پان کے تھوکنے کے دھبے دیکھتے تھے، اب وہاں گٹکے کے دھبے ہیں، جو در دیوار، چوراہوں کو غلیظ کیے ہوئے ہیں۔ تمباکو نوشی جسے ہم خاموش قاتل کہتے ہیں، گٹکا اس سے پچاس گنا زیادہ زہریلا اور مضر صحت ہے۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی ہی میں 80 سے زیادہ گٹکے کی فیکٹریاں ہیں۔ جب کہ یومیہ پینتالیس ہزار کلو سے بھی زیادہ گٹکا کھایا جاتا ہے۔  ایک اندازے کے مطابق پانچ ملین اسکولی بچے، جن کی عمریں پندرہ سال سے کم ہیں، وہ گٹکا کھاتے ہیں۔ نتیجے میں معدے اور پیٹ کے مسائل تو لگے ہی رہتے ہیں، پر جان لیوا بیماری گلے اور منہ کے سرطان کے چانسز کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ حال ہی میں میڈیا میں رپورٹ ہوا تھا کہ ضلع بدین میں گٹکے کے باعث منہ کے سرطان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست، گٹکے کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی لگاو، کی شنوائی جب بدھ کے روز ہوئی، تو سندھ ہائی کورٹ کے جج  جسٹس صلاح الدين پنہور نے پولیس اور آئی جی سندھ کلیم امام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے، کیا اس گٹکے سے کمائے جانے والے پیسوں سے شیئر آئی جی سندھ کو بھی ملتا ہے، جو وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں؟ جب کہ جج صاحب نے یہ وارننگ بھی دی کہ وہ یہ مسئلہ وفاقی ادارے ایف آئی اے اور نیب کو بھجوائیں گے۔ تا کہ معلوم پڑے کہ پولیس والوں کے پاس آمدن سے زیادہ اثاثے کس طرح سے ہوتے ہیں۔ دوران سماعت جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، شعبہ سرطان کے انچارج غلام حیدر  نے انکشاف کیا کہ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺎﺡ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﮐﮯ 10 ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺮﯾﺾ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ، 15 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﮔﭩﮑﺎ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﯿﻨﻮﻓﯿﮑﭽﺮﺭﺯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ؟ ﮔﭩﮑﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﻋﻤﺮ ﻗﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﮨﻮﻧﯽ چاہیے۔ عدالتی احکام اور پولیس پر برہمی کے اظہار کے بعد  پولیس نے ضلع ٹھٹہ میں گٹکے کے خلاف کریک ڈاوں کر کے دس فیکٹریاں سیل کر دیں، اور پچیس ملوث افراد کو گرفتار کر ليا ۔ یہ ایک ضلعے کے کارروائی تھی، پر باقی اضلاع میں بھی یہی احوال ہے، بہتری ہو سکتی ہے بشرط یہ کہ پولیس غیر جانب داری سے اپنے فرائض انجام دے۔ نا صرف پولیس کو پر ہم سب کو بھی چاہیے کہ اپنے اردگرد جو بھی اس گندے دھندے میں ملوث دیکھیں، اس کی اطلاع جلد از جلد متعلق پولیس اسٹیشن کو دیں ۔

ہم سب کو چاہیے کہ بحیثیت انسان، اپنے بھائیوں کو یہ تاکید کریں کہ وہ یہ زہریلا گٹکا استعمال کر کے اپنی اور والدین کی زندگیاں تباہ نہ کریں۔ ایسے چیزوں سے ہمارے صحت کو کئی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اگر ہم صحت مند ہی نہیں ہوں گے، تو کس طرح اپنے والدین، ملک و قوم کی خدمت کر پائیں گے اور کس طرح ان ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کر پائیں گے، جن کی ترقی کا ضامن ان کا نوجوان طبقہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).