سرخ قالین بچھاتے غلام


ڈیوک اور ڈچز آف کیمبرج اپنے پاکستان کے پہلے شاہی دورے پر اسلام آباد تشریف لا چکے ہیں۔ اور ہم اپنی مشرقی روایات کے تحت گھر آئے ہوئے مہمانوں کا استقبال ریڈ کارپٹ بچھا کر کر رہے ہیں ان معززمہمانوں کو گرم جوشی سے ویلکم کہہ رہے ہیں۔ ہونا بھی چاہیے آج کی مہذب دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے کہ گھر آئے ہوئے معزز مہمانوں کے ساتھ اسی طرح کا برتاو کیا جاتا ہے۔

ویسے اگر ہم اپنی یاداشت پر زور دیں تو ہمیں یاد آئے گا کہ بطور ایک ہندوستانی ہماری صدیوں سے روایت رہی ہے کہ ہم نے باہر سے آنے والے ہر شخص کو اسی طرح سرخ قالین بچھا کر ویلکم کیا ہے، چاہے وہ کوئی بیرونی حملہ آور ہو یا پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کی صورت میں استعماری قوتوں کے ایجنٹ۔ ہم نے مشرقی روایات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیا۔ بیرونی حملہ آور اور تاجروں کے روپ میں قزاقوں کو ہم نے باہمی جھگڑوں، حسد، منافقت کے زیر اثر نا صرف مدد کی بلکہ زر، زن اور زمین تک ان کے قدموں میں نچھاور کر دیں۔ ان ایجنٹوں کی محبت میں اُن کے جسمانی آرام کا خیال کرتے کرتے ہم نے اینگلو انڈین جیسی ایک نئی نسل تیار کر لی، جو کئی دہائیوں بعد آج بھی ہوا میں معلق ہے اور نا تو اُس کا اس زمین سے رشتہ بن پایا اور نا ہی اپنے حیتیاتی آبا و اجداد سے۔

1947 سے پہلے کے ہم ہندوستانی اور تقسیم کے بعد ہم پاکستانی اور ہندوستانی برطانوی گوروں اور گوریوں سے متعلق معمول سے ہٹ کر کچھ زیادہ ہی جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ہماری وارفتگی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے مہان شعرا نے ملکہ برطانیہ کے انتقال پر وہ مرثیہ نگاری کی کہ آج بھی اگر اس شاعری کو پڑھ لیں تو آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔جلیانوالہ باغ ہو یا پھر بھگت سنگھ اور اس طرح کے دیگر سر پھرے جب قانون ہاتھ میں لیں گے تو پھر انجام تو بھگتنا پڑے گا۔

سرحد کے دونوں طرف یہ حالت ہے کہ برطانوی شاہی خاندان کے کسی فرد کی جب بھی ان دو ہمسایہ ممالک (انڈیا اور پاکستان) میں آمد ہوئی ہے، ہمارے کمپلیکس کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت مقام پر شاہی خاندان کے افراد کی ضیافتیں اوران کے احترام میں حکومتی اراکین کا ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے کا منظر بالکل ویسا ہی ہے، جیسا برطانوی راج میں وائسرائے کے دربار میں ہندوستانی مودب کھڑے ہوتے تھے۔

ان دونوں ملکوں کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ان معزز مہمانوں کو کبھی آزاد اور مقبوضہ کشمیر کا دورہ بھی کرادیں تا کہ ان کو معلوم تو ہو کہ اُن کے اسلاف کی وجہ سے آج خطے کے دو ارب انسانوں کی زندگی داو پر لگی ہوئی ہے۔ بے شک دونوں ملک وہاں پر ریڈ کارپٹ بچھا دیں، کس کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ کم سے کم مجھے تو بالکل اعتراض نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود میں معزز مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں، کیونکہ میں بھی تو اسی خطہ کا باسی ہوں، جس پر انہوں نے حکومت کی ہے۔ میرے کمپلیکس بھی تو اپنی جگہ پر موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).