اولاد کی تربیت کے لیے وقت نکالنا ضروری ہے


عائشہ سعدیہ

ایک لطیفہ پڑھا تھا: میاں بیوِی میں شدید اختلاف کے باوجود بچوں کی مسلسل پیدائش بھی مشرقی روایات کی خوبصورتی ہے۔

اس پہ بہت ہنسا جا سکتا ہے، پر مجھے اسے پڑھ کر رونا بھی بہت آتا ہے، یہ ایک لطیفہ سہی پر اس میں پوری ایک داستان موجود ہے۔

جیسے ایک آرکیٹیکچر کو کورا کاغذ دے کر کہا جاتا ہے اس پہ وہ نمونہ بناؤ کہ جب وہ زمین پہ وجود میں آئے تو دنیا عش عش کر اُٹھے، پھر دنیا نے دیکھے ہیں وہ نمونے جسے  مصر کے پیرامیڈ، تاج محل، برج خلیفہ، دبئی مال اور ایسے لاتعداد نام جو دنیا میں عجابات میں آتے ہیں، لوگ وہاں جانا فخر محسوس کرتے ہیں اور اب تو سیلفی لازمی ہے۔ جیسے سنار کو سونے کی ڈلی پکڑا کر کہا جاتا ہے ایسا ڈیزائینبنا دو تو وہ اسے بیش قیمت بنا دیتا ہے۔

بلکل ویسے ہی دو لوگوں کو ایک بچہ دیا جاتا ہے، کورا کاغذ، ایک سانس لیتا وجود جسے تراشنا سوارنا اُن دو لوگوں کا کام ہوتا ہے۔  پر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بچہ پیدا کرنے کے بس روٹی، کپڑا، مکان دینے کو ہی کافی سمجھ لیا ہے۔ اخلاق تربیت کیا فضول باتیں ہیں، ایسی باتیں سوچ کر بچوں کی تعداد کم رکھنا بہت غلط  ہے۔ بچہ پیدا ہونا چاہیے معاشرے کے لیے مفید بنانے کا ٹھیکہ صرف والدین کا تھوڑی ہے، اب معاشرے کی وجہ سے پیدا کیا ہے تو معاشرہ کرے نہ تربیت۔

پہلا بچہ پیدا نہ ہو تو یہی لوگ طعنے دیتے نہیں تھکتے، اور مشوروں کی فہرست کا تو کوئی حساب نہی۔ سو پہلا بچہ لوگوں کا منہ بند کروانے کے لیے وقف ہوتا ہے کہ یہ دیکھیں سب ٹھیک ہے، تو ہوا نہ معاشرے کے لیے۔ دوسرا بچہ پہلے کے ساتھ کھیلنے کے لیے، یا جوڑی مکمل کرنے کے لیے، تیسرا بس یو ہی اور چوتھا پانچواں بھی بس یوں ہی۔ اور اگر پہلی دوسری، تیسری بیٹی ہوں تو بیٹے کی خواہش میں مزید بچے تاکہ اُن کی نسل چل سکے، اُن کا نام لیوا ہو۔

اوپر نیچے یوں بچوں کی تعداد نہ تو عورت کی جسمانی اور ذہنی صحت ٹھیک رہنے دیتی ہے اور اگر مرد گھر کا واحد کفیل ہو تو مرد کا معاشرتی ضروریات کا بوجھ بھی بڑھ  جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جوائینٹ فیملی سسٹم، جہاں صبح کا ناشتہ پانچ بجے شروع ہو کر دس بجے تک جاتا ہے، پھر گیارہ بجے دوپہر کے کھانے کی تیاری جو تین بجے تک جاری رہتی ہے، اور ساتھ ہی شام کی چائے کے لوازمات کا وقت ہوا چاہتا ہے اور چائے کے وقت ختم ہونے سے پہلے ہی رات کے کھانے کی تیاری۔ اور مرد تو صبح گئے رات واپس آئے، ان سب میں کہاں وقت ملتا ہے تربیت کا۔ نوکر چاکر ہوں تب تو ویسے بھی بچے والدین کی نہیں میڈ کی ذمہ داری ہوتے ہیں یا سکول والوں کی تو کرے نہ معاشرہ تربیت۔ سکول وہ لگثیری ہے جو مڈل کلاس اور الیٹ کلاس تو افورڈ کر سکتی ہے مگر سکول تربیت نہیں کرتا بس چند ہندسے، الفاظ رٹواتا ہے۔

اور جن کو یہ لگژری بھی میسر نہیں اُن کے بچہ سڑک کنارے چھوٹی موٹی نوکری کرتے یا بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ پر تربیت کہیں بھی معاشرہ نہیں سکھاتا ہے۔ اور جو معاشرہ سکھاتا ہے اُسے ہم سب روز خبروں میں دیکھتے ہیں۔ا ایک سٹیٹس لگا کر افسوس بھی کرتے ہیں۔ زینب کے قاتل پر، کسی بچہ یا بچی  کے ریپ پر، مشال خان کو درندگی سے مارنے والوں پر، جنید، آسیہ اور لاتعداد کی زندگیاں برباد کرنے والوں پر، قندیل کے قاتل پر، ملالہ پہ اور سکول میں بے شمار بچے مارنے والوں پر۔

تربیت نہ ہو تو ایسے بے شمار عوامل جو خبروں میں گاہے بگاہے نظر آتے ہیں  معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں۔

بچہ برا یا اچھا پیدا نہیں ہوتا، اسے اچھا یا برا بنایا جاتا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان بنیادی ضروریات ہیں مگر یہ کافی نہیں۔ والدین کے پاس ہی وقت نہیں تو معاشرہ کیوں وقت دے؟ جب اپنی اولاد سے ہی بات نہیں کریں گے تو خرابیاں تو آئیں گی ناں۔ بس ایک دوڑ کا گھوڑا یا خچر تیار کرنا کافی نہیں، جو بالکل رنبیر کپور کے ڈائلاگ جیسا ہوتا ہے لڑکوں کے لیے “بائیس تک پڑھائی، پچیس پہ نوکری، چھبیس پہ چھوکری، تیس پہ بچے، ساٹھ پہ ریٹائیرمنٹ اور پھر موت کا انتظار”۔
لڑکیوں کے لیے  ویسے بھی یہ معاشرہ الگ معیار رکھتا ہے تو ڈائیلاگ بھی  کچھ الگ ہو گا ناں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).