ایک ڈاکٹر کی چھٹیاں اور ملنے والوں کی بیماریاں 


پچھلے ہفتے ایک شام ٹوسٹ ماسٹر (Toast masters) میٹنگ میں‌ جانا ہوا۔ میں نے نئے افراد کو اپنا نام بتانے کی کوشش کی لیکن ان کا یہی مسئلہ تھا کہ کوئی لنڈا کہہ رہا ہے اور کوئی لڈنا۔ میں‌ نے بیگ میں‌ سے اپنا آئی ڈی بیج نکال کر ان کو اپنے نام کی ہجے بتانے کی کوشش کی۔ ان صاحب نے کہا اوہ آپ فزیشن ہیں۔ میں‌ نے جلدی سے بیج کا نیچے والا حصہ اپنے دوسرے ہاتھ سے چھپا دیا اور کہا کہ میں “آف دا کلاک” (Off the clock) ہوں یعنی میری چھٹی ہو چکی ہے۔ یعنی برائے مہربانی اپنی بیماریوں کی کہانی بتانا شروع نہ کریں، کچھ اور بات کریں۔

ڈاکٹر ہونے کے کچھ فوائد ہیں۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا ہو تو لوگ بلاوجہ سمجھتے ہیں‌ کہ آپ بہت مالدار ہوں گے، قرض آسانی سے مل جاتا ہے اور لوگ آپ کو ہر شعبے میں‌ لائق سمجھتے ہیں، چاہے ایسا ہو یا نہیں۔ یہ بات فائنانس کے شعبے کے افراد سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرز کو پیسوں‌ کے بارے میں‌ جھانسا دینا مشکل کام نہیں کیونکہ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے نقصان کھانے والے اقدام کر سکتے ہیں اور ایسا کرتے بھی رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ہونے اور گھر سے باہر کام کرنے کے معاشرے کو بھی اور خواتین ڈاکٹرز کو بھی بہت سارے فائدے ہیں۔ اس سے لوگ آپ کا وقت ضائع نہیں کرسکتے کیونکہ آپ گھر میں‌ یا فون پر اپنا وقت ضائع کروانے کے لیے موجود ہی نہیں‌ ہوں گی۔ ہارورڈ میں‌ کی گئی ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین کے بچے زیادہ زہین ہوتے ہیں اور زندگی میں‌ زیادہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ڈاکٹر کبھی چھٹی پر ہوتا ہے؟

اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ ایک ڈاکٹر کبھی بھی چھٹی پر نہیں ہوسکتا۔ اس کے بارے میں‌ ایک مزاحیہ فلم “واٹ اباؤٹ باب”  (What about Bob?) ہے جس میں‌ ایک ذہنی مریض اپنے سائکائٹرسٹ کی چھٹیوں‌ میں‌ اس کے ویکیشن گھر پر پہنچ جاتا ہے اور اس کی چھٹیاں‌ برباد کردیتا ہے۔ اس مووی میں‌ یہ مریض‌ ٹھیک ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر خود بیمار۔

چھٹیوں‌ میں‌ کیے گئے کام کے قصوں سے پہلے روزانہ جو شکایات‌ مجھے اور دیگر ڈاکٹرز کو سننی ہوتی ہیں ان میں‌ سے کچھ مندرجہ ذیل ہیںِ‌۔

میری بھوک ختم ہوگئی ہے۔ مجھے بہت تھکن محسوس ہوتی ہے۔ مجھے نیند نہیں‌ آتی۔ میرا وزن بہت بڑھ گیا ہے۔ مجھے کھجلی کی شکایت ہے۔ میرا گلا خراب ہے۔ میری نکسیر پھوٹتی رہتی ہے۔ میں‌ سوتے میں خراٹے لیتا ہوں۔ مجھے سردی زیادہ لگتی ہے۔ مجھے پسینہ بہت آتا ہے۔ مجھے ہر وقت پیاس لگتی ہے۔ مجھے بار بار پیشاب آتا ہے۔ مجھے گرمی زیادہ لگتی ہے۔ مجھے کھانسی ہے۔ سانس لینے میں‌ دقت ہے۔ دل کی دھڑکن بگڑی ہوئی ہے۔ پیروں‌ اور ٹانگوں‌ میں‌ سوجن ہے۔ مجھے قبض کی شکایت ہے۔ میرے سینے میں‌ جلن محسوس ہوتی ہے۔ مجھے متلی ہے۔ خون بہنے لگے تو مشکل سے جمتا ہے۔ غدود سوجے ہوئے ہیں۔ پیشاب میں‌ خون ہے۔ چھینک ماروں‌ تو پیشاب نکل جاتا ہے۔ جوڑوں‌ میں‌ تکلیف ہے۔ میرے سر میں‌ درد رہتا ہے۔ میری یادداشت کمزور ہے۔ مجھے ڈپریشن ہے۔

ہمارا کام ان تمام علامات کو ہمدردی سے سننا اور ان کو ایک معمے کی طرح‌ آپس میں جوڑ کر مختلف مناسب ٹیسٹوں کے پس منظر میں درست تشخیص کرنا ہوتا ہے تاکہ مریض‌ کا مناسب علاج کیا جاسکے۔ جب ڈاکٹرز سارا دن کام کرکے آئے ہوں‌ تو ان میں سماجی دائروں میں‌ لوگوں‌ کی مزید علامات سننے یا ان پر غور کرنے کی قطعا” ہمت باقی نہیں‌ رہتی ہے۔ تھوڑا بہت چلتا ہے۔ جیسے کچھ بھی قانون سے متعلق بات ہو تو میں‌ اپنے قانون دان دوستوں‌ سے پوچھوں گی لیکن ان سے دوستی میں‌ چھٹی کے دن پورا کیس لڑوانا درست نہیں‌ ہوگا۔ تمام معلومات سامنے رکھے بغیر درست مشورے دینا ممکن بھی نہیں‌ ہوتا ہے۔ اس کو نیم حکیم خطرہ جاں سمجھنا چاہئیے۔

اب آتے ہیں چھٹیوں‌ میں‌ میڈیکل کی پریکٹس کی طرف۔ جب ہماری ٹریننگ چل رہی تھی تو ایک سال پچوٹری ٹیومر (Pituitary tumor) پر پوسٹر پیش کرنے اور دوسرے سال ریٹینوئک ایسڈ سنڈروم (Retinoic Acid syndrome) پر زبانی پریزنٹیشن دینے نیو اورلینز جانا ہوا۔ میرے ساتھ یونیورسٹی سے ایک سائنسدان بھی گئی تھی اور ہم روم میٹ تھے۔ اس کو میں‌ نے بتایا کہ اس نے رات بھر کتنے زوردار خراٹے مارے اور بار بار اس کا سانس رک جاتا تھا۔ ایک تو اگلے دن کا ٹینشن اور اوپر سے اس کے خراٹے! تکیہ دونوں‌ کانوں‌ پر لپیٹ کر مشکل سے نیند آئی۔ اس کو مشورہ دیا کہ سلیپ اسٹڈی کروائے۔ اب وہ سی پیپ (CPAP machine) مشین استعمال کرتی ہے۔

ہم لوگ کولمبیا گئے تو میری دوست کے ایک بھائی سے ملے جو وہیل چئر میں‌ بیٹھا رہتا تھا۔ دو تین دن کے بعد میں نے سوچا کہ یقیناً پچھلے دن اس کی دائیں‌ آنکھ پر پردہ تھا اور آج بائیں‌ آنکھ پر ہے۔ تمہاری کون سی آنکھ میں‌ بینائی نہیں‌ ہے؟ اس سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ میری آنکھیں دن کے گذرنے کے ساتھ ساتھ تھک جاتی ہیں اور پلکیں‌ نہیں‌ اٹھا سکتا ہوں‌ اس لیے اس طرح ان سے باری باری کام لیتا ہوں۔ اچھا تمہیں‌ “مایاستھینیا گراوس” (Myasthenia gravis) ہے اور اس کا دوا سے علاج ہوسکتا ہے۔ اس کی دوا پائریڈواسٹگمین (Pyridostigmine) ہوتی ہے۔ تم اپنے لوکل ڈاکٹر سے اس بارے میں‌ بات کرنا جس کے پاس تمہارے علاقے میں‌ میڈیکل پریکٹس کا لائسنس ہو اور وہ تمہارے اوپر علاج کے دوران نظر رکھ سکے۔

جب ہم انڈیا گئے تو پہلے دن ہی ایلس میری پچھلی سیکرٹری دلی میں‌ قطب مینار کے احاطے میں گر پڑی اور اس کی ٹانگ میں‌ چوٹ لگی کیونکہ فرش برابر نہیں‌ تھا، اونچا نیچا تھا۔ ہمارے ڈرائیور نے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں تو میرے بھانجے نے اس سے کہا کہ خالہ خود ڈاکٹر ہیں۔

دو ہفتوں‌ کے سفر میں‌ دو خواتین کی ٹانگیں‌ شدید سوج گئی تھیں۔ ایک چھوٹی پرچی پر ایچ سی ٹی زی یا ہائیڈرو کلوروتھائزائڈ لکھ کر ایک بچے کو لوکل فارمیسی بھیجا تو وہ ہائیڈرو آکسیزین لے کر واپس آیا۔ اس کو دیکھ کر میں‌ ان سے کہا کہ یہ درست دوا نہیں‌ ہے۔ اس سے سوجن تو کم نہیں ہوگی صرف نیند آجائے گی۔ انڈیا جانے سے پہلے تمام ویکسینیں‌ لگوا کر گئے تھے اور ملیریا سے بچنے کی دوا بھی لیتے رہے۔ انڈیا میں‌ جو بھی رشتہ دار ملنے آئے انہوں‌ نے اپنی دوائیں‌ دکھائیں اور مشورے طلب کیے۔

بی جمالو صرف خواتین نہیں‌ ہوتیں۔ میرے ایک انکل بھی بی جمالو ہیں۔ ان کو سوڈو لوجیا فینٹاسٹیکا (Pseudologia Fantastica) کی بیماری ہے۔ ہمارا خاندان ہندوستانی اور پاکستانی ہے۔ اس سماج میں‌ رشتہ دار ایک دوسرے کا تمام زندگی سر کھاتے رہتے ہیں، لڑتے جھگڑتے ہیں اور مسائل حل کیے بغیر پھر سے صلح‌ کرتے ہیں۔ اس طرح‌ ان کا دائرے کا سفر جاری رہتا ہے۔ امریکی لائف اسٹائل میں‌ اس بات کی گنجائش نہیں‌ ہے۔ یا تو مسئلہ حل کریں‌ یا پھر تعلق ختم کریں۔ اب تو نئی نسل بھی سمجھدار ہوگئی ہے۔ عزت کو کمانا پڑتا ہے۔ آپ اپنے گھر میں‌ بڑے ہوں گے، ہم اپنے گھر میں‌ خود بڑے ہیں۔ یہاں پر یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہی ہوں‌ کہ انکل کے بغیر پچھلے 15 سال سکون سے گذرے۔ کوئی آکر یہ نہیں‌ کہہ سکتا کہ انکل نے کہا کہ آپ نے ہمارے لیے یہ کہا۔ سب کو معلوم ہے کہ انکل اور ہمارے درمیان کوئی گفت و شنید نہیں ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر سہیل بھی کہتے ہیں۔ ریزالو یا ڈزالو۔

ایک مرتبہ میری ایک قانون دان دوست کے گھر جانا ہوا۔ اس کے گھر ایک بوڑھے جج صاحب آئے ہوئے تھے۔ انہوں‌ نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ میں‌ جج ہوں‌ اور امید ہے کہ آپ سے عدالت میں‌ ملاقات نہیں‌ ہوگی۔ اس کے جواب میں‌ میں‌ نے ان سے کہا کہ میں‌ ڈاکٹر ہوں‌ اور امید ہے کہ آپ سے ہسپتال میں‌ ملاقات نہیں ہوگی۔ یہ ایک لطیفہ بن گیا۔ میں‌ نے دیکھا کہ ان کی کمر جھکی ہوئی ہے۔ آپ کو اوسٹیوپوروسس (Osteoporosis) اور لو ٹیسٹااسٹیرون (Low Testosterone) کا چیک اپ کراوانا چاہئیے میرے زہن میں‌ سے گذرا۔ لیکن میں‌ آف دا کلاک ہوں، یہ کہہ کر میں‌ نے اس سوچ کو جھٹک دیا۔ یہاں‌ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ جج صاحب گر گئے اور ان کو فریکچر ہوگیا تو کیا اس کی ذمہ داری میرے اوپر عائد ہوتی ہے کہ میں‌ نے ان کو اس خطرے کے بارے میں‌ جانتے ہوئے بھی کیوں‌ نہیں‌ بتایا؟ یہ ایتھکس کا سوال ہے اور اس پر بھی ایک طویل گفتگو ہوسکتی ہے۔

میرے خیال میں‌ ایک ڈاکٹر صرف آنکھوں‌ پر پٹی باندھ کر اور کانوں‌ میں‌ روئی ٹھونس کر ہی چھٹی پر ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).