مولانا نون لیگ پی پی کے لیے بھی خطرہ بن رہے ہیں


آج کل جدھر جاؤ جس سے ملو ۔ ایک ہی بات ہوتی ہے کہ مولانا کے پیچھے کون ہے ۔ ان کو اندر سے حمایت حاصل ہے کہ ان کو باہر سے حمایت حاصل ہے ۔ ہو گا کیا ؟ کی بنے گا ۔ کسی کو لگتا کہ دو وزیراعلی بدلوانے کے لیے کپتان پر پریشر بڑھایا جا رہا ہے ۔ کسی کا خیال ہے کہ نشانہ سر جی ہیں ۔
 
کسی کو لگتا کہ ، خیر چھڈو یہ نہیں بتانا
 
 کئی مخالفین اور پی ٹی آئی کے کارکنان دل سے  دعائیں مانگ رہے ہیں کہ مولانا آئیں ان کے چنڑوں کو کٹ لگے اور پھر یہ لمی لمی پوسٹیں لکھیں ، دیکھا ہم نہ کہتے تھے ۔ اگر تو آپ کی آنکھیں اچانک اج ہی کھلی ہیں کہ مولانا آ رہے اور کچھ ہونے لگا تو پھر آپ یہی سب سوچیں گے۔ ذرا الیکشن سے پہلے چلیں ، بلکہ  کپتان کے دھرنے تک پہنچیں ۔ ڈیزل ڈیزل کی باتیں یاد کریں ۔ اک مسلسل توہین دل آزاری یاد کریں ۔ مولانا بہت لمبی لیڈ سے ہارے ہیں ڈی آئی خان سے لیکن وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں تھا اگر ان کے مخالفین پر ہاتھ نہ رکھا جاتا ۔
 
کئی سیٹ پر انہیں لگتا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ۔ تاثر غلط ہے یا ٹھیک انہیں ضرور لگتا ۔ پی ٹی آئی نے الیکشن جیت کر ظرف کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ نہ تو مولانا پر کوئی کیس بنا کر انہیں بند کیا ۔ دل آزاری کا عمل مسلسل آج کے دن تک جاری ہے ۔
 
مولانا اسمبلی جانے کو تیار نہیں تھے الیکشن کا نتیجہ ہی نہیں مان رہے تھے ۔ اپنے سیاسی دوستوں کا مان رکھا اسمبلی چلے گئے ۔ یہ کام آصف زرداری اور نوازشریف نے کیا ۔
 
مولانا نے پورا سال تنظیم سازی کی ۔ اپنی پارٹی کے ان لوگوں کو فارغ کیا جو الیکشن نتائج کے بعد جا کر انتظار میں بہہ جاتے تھے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کو کچھ کرنا ہے یا وہ پانچ سال آرام کریں گے ۔
 
پندرہ ملین مارچ کیے ۔ اپنی ساری تنظیم کو ایکٹیویٹ کیا ۔ یہ ضرور یاد رہے کہ نام ملین مارچ تھا تعداد ہزاروں میں ہی رہی لیکن پارٹی ورکر چارج ہو گیا ۔
 
جس بندے تنظیم کے ساتھ پاکستان میں چار لوگ ہیں ہر اک سے جے یو آئی رابطہ کر چکی ہے ، ان سے کوئی نہ کوئی فیور دینے کو کہہ چکی کہ ساتھ نہیں جانا تو اس کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں
 
تاجروں سے صنعت کاروں سے سفارتکاروں سے میڈیا والوں سے اپنے بیرونی دوستوں سے حتی کے حریف ملکوں تک سے مولانا کسی نہ کسی لیول پر صورتحال کی وضاحت لے چکے ۔
 
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کبھی دو عملی سرے نہیں چڑھتی ۔ نون لیگ پی پی کے اک اک منہ میں دس دس زبانیں ہیں ۔ ان کی پالیسی کا ان کے اپنے ورکر تک کو پتہ نہیں ۔ دوسری طرف مولانا سیدھا ٹارگٹ پر ہٹ کر رہے ۔ مارشل لا لگا تو مزاحمت کا کہہ رہے ۔
 
ہمارے عوام تصادم پسند ہیں ۔ کھل کے بولنے والے پوزیشن لینے والے کو پسند کرتے ۔ کل جے یو آئی سوشل میڈیا نے لال شہباز قلندر کے دربار پر مولانا کے دورے کی ایک فوٹو بھی جاری کی ۔
 
مقصد کیا تھا ۔ مولانا آبادی کے ہر کلسٹر کو آن بورڈ لے رہے ۔ گدی نشینوں سے رابطے کر رہے ۔ جے یو آئی کا دیوبند کا نمائندہ ہونے کا تاثر چھوڑ کر میں سب کا ہوں سب کی بات کرونگا والی پوزیشن لے رہے ۔
 
آپ ان سے کوئی سوال کریں وہ جواب دے رہے ۔ کہیں کوئی ابہام نہیں رکھ رہے ۔ سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کا ہو وہ مولانا کی جانب مائل ہوتا دکھائ دے رہا ہے ۔ اے این پی پی پی مسلم لیگ نون کی مقامی تنظیمیں مولانا سے تعاون کرنے پر آمادہ اور تیار دکھائی دے رہی ہیں ۔ بظاہر لگتا ہے کہ مولانا کی تحریک کامیاب بھی ہو جائے تو ان کی پارٹی اکثریت نہیں لے سکے گی ۔
 
آصف زرداری نے ایک تاریخی غلطی کی تھی ۔ جب انہوں نے پی ٹی آئی کے پنجاب میں جلسوں میں تعاون فراہم کیا تھا ۔ اپنے جیالوں کو کپتان کی طرف جانے دیا تھا ۔ جیالا گیا پھر واپس نہیں آیا ۔ پی پی سے پنجاب ہی چلا گیا ۔
 
اس بار پی پی والی غلطی نون لیگ بھی کر رہی ہے ۔ کوئی بہت بڑا شئر تو شائد مولانا اور ان کی جے یو آئی نہ لے سکیں ۔ لیکن اک کامیاب یا ناکام تحریک کی صورت میں شائد پنجاب اور سندھ میں جے یو آئی بھی اپنے لیے کچھ پاکٹس تلاش کر ہی لے ۔ مولانا کا مارچ حکومت کے ساتھ جو کرے سو کرے ۔ اپوزیشن کے ساتھ بھی بہت کچھ کر گزرے گا ۔ 
وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi