دھرنے کی بانسری: اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے


دنیا کے مختلف خطوں میں نت نوع مسائل موجود ہیں جن کا پوری دنیا کی صورت حال اور بین الملکی تعلقات پر اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری اقتصادی جنگ کی وجہ سے چین کی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کو اندیشہ ہے کہ یہ صورت حال برقرار رہی تو پوری دنیا مالی مشکلات کی زد میں آ سکتی ہے۔

ترکی شمالی شام میں کرد عسکری گروہ کو پیچھے دھکیل کر ساڑھے چار سو مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس علاقے میں شامی پناہ گزینوں کو آباد کیا جائے اور کرد عسکری گروہوں کو ملک کی سرحد سے دور رکھا جائے کیوں کہ اس کے خیال میں اس گروہ کی وجہ سے ترکی کے کرد علیحدگی پسند وں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ شامی کردوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں امریکہ اور یورپ کا ساتھ دیا تھا، اس لئے نیٹو میں شامل ممالک ترکی کو اس جارحیت سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ کبھی ٹرمپ صدر اردوان کو ’بے وقوفی نہ کرنے‘ کا مشورہ دیتے ہیں اور کبھی یورپئین یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک ترکی کو دھمکاتے ہیں۔ صدر اردوان جواب میں اپنے ہاں مقیم 35 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف دھکیلنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

ترکی اور کردوں کی جنگ کے علاوہ یورپ کو برطانیہ کے یورپئین یونین چھوڑنے کے تنازعہ کا بھی سامنا ہے جس کے برطانیہ کے علاوہ پورے یورپ کی معیشت اور سماجی معاملات پر اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ روز برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے یورپئین یونین کے ساتھ حتمی معاہدہ کیا ہے تاہم اب اس پر برطانوی دارالعوام میں غور ہو رہا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ پہلے دو مرتبہ اس قسم کے معاہدہ کو مسترد کرچکی ہے جس کے نتیجہ میں اس سال مئی میں وزیر اعظم تھریسا مے کو استعفی دینا پڑا تھا۔ اس وقت دارالعوام اس تجویز پر غور کررہا ہے جس میں بریکسٹ معاہدہ کے لئے یورپ سے مزید وقت طلب کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

ہانگ کانگ میں کئی ماہ سے چین مخالف احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں جس کا چین کی معیشت اور سیاست پر گہرا اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ ابھی تک چینی حکومت نے براہ راست فوجی مداخلت سے گریز کیا ہے لیکن گزشتہ دنوں صدر زی جن پنگ نے سخت وارننگ دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اگر چین کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو اسے سختی سے کچل دیاجائے گا۔ ایران سعودی عرب تنازعہ کے علاوہ یمن پر سعودی حملے اور ان سے پیدا ہونے والی صورت حال مشرق وسطیٰ کے امن کے لئے ایک مسلسل خطرہ ہے۔ اس دوران فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل اور کشمیریوں کے خلاف بھارت کے جابرانہ اقدامات نے سنسنی خیز اور تکلیف دہ صورت حال پیدا کی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں کئے جانے والے آئینی اقدمات کے علاوہ بھارتی حکومت نے کسی ممکنہ احتجاج کو دبانے کے لئے عسکری نگرانی میں اضافہ کے علاوہ کشمیریوں پر سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہ باقی ماندہ دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ نئی دہلی کی طرف سے اگرچہ دنیا کو اطمینان دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حالات اس کے کنٹرول میں ہیں اور شہری آزادیاں بتدریج بحال کی جارہی ہیں لیکن عملی طور سے ان پابندیوں میں کوئی نرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے کشمیریوں کی حالت کے بارے میں تشویش کا اظہار کررہے ہیں لیکن بھارتی حکومت اپنا چلن تبدیل کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ نے بھی اس معاملہ میں مداخلت کرنے یا نئی دہلی کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا احتجاج بیانات اور سیاہ پٹیا ں باندھنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر کشمیریوں سے اسی قسم کے اظہار یک جہتی کا مظاہرہ کیا۔ البتہ حکومت اور اپوزیشن یکساں طور سے مسئلہ کشمیر کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اپنے آزادی مارچ کی ابتدا 27 اکتوبر کو کشمیریوں کے ساتھ یوم سیاہ منانے کے لئے مظاہروں اور جلسوں سے کریں گے جبکہ حکومت اس احتجاج کو سیاسی مطالبہ سمجھنے کی بجائے مذہبی کارڈ قرار دیتی ہے اور اب اسے کشمیر دشمن ایجنڈا کہا جا رہا ہے۔

 اپوزیشن کے ساتھ اس احتجاج کے حوالے سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے ہفتہ کی شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات سے انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن دراصل اینٹی کشمیر ایجنڈے پر عمل کررہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان ایک روز پہلے وزیر اعظم کی طرف سے جمیعت علمائے اسلام اور اپنے بارے میں سخت کلامی کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کرچکے ہیں کہ اس ماحول میں بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ احتجاج وزیر اعظم کے استعفیٰ کے لئے کیا جارہا ہے ، اس مطالبے پر کوئی مذاکرات یا مفاہمت نہیں ہوگی البتہ حکومت مستعفیٰ ہوجائے تو مستقبل کے لائحہ عمل پر بات ہوسکتی ہے۔

کشمیر کے سوال پر الزام تراشی سے قطع نظر حکومت کو اس وقت ملک کی دگرگوں معیشت کا سامنا ہے جس کے بارے میں یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، حکومت کے اقدامات سے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ یہ تسلی نہ جانے عوام کو دی جاتی ہے یا حکومت خود کو ہی مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے کیوں کہ عام آدمی تک کسی معاشی بہتری کا اثر نہیں پہنچ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے بارے میں یہ خوف بہر حال موجود ہے کہ اگر مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آئے ہوئے عوام کی بڑی اکثریت اچانک اس احتجاج میں شامل ہونے پر مجبور ہوگئی تو ملکی حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔

 معیشت اور سفارت کے حوالے سے پاکستان کو ایک دھچکہ جمعہ کے روز پیرس میں لگا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اس اجلاس میں پاکستان کو مزید چار ماہ تک گرے لسٹ پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم تشویش کی بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے صدر چیانگ من لیو نے اسے آخری وارننگ قرار دیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ پاکستان دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنے کے وعدے کرنے کے باوجود، اس کی روک تھام کے لئے مکمل اقدامات نہیں کرسکا۔ اگر فروری 2020 تک پاکستان نے قابل ذکر اقدامات نہ کئے تو ایف اے ٹی ایف مزید کارروائی پر غور کرے گا جس میں اسے بلیک لسٹ پر ڈالنا بھی شامل ہے‘۔ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ پر پاکستان کی شمولیت اس کی معیشت کی مکمل تباہی کا پیغام ہوگی۔ دنیا کے ساتھ لین دین مشکل اور انتہائی مہنگا ہوجائے گا۔ اس سے پہلے صرف شمالی کوریا اور ایران اس بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔ اس معاشی تنہائی سے وہاں کے عوام جن صعوبتوں کا سامنا کررہے ہیں، اس کا ذکر خبروں اور رپورٹوں میں ہوتا رہتا ہے۔

دنیا اور پاکستان کو درپیش مسائل کے اس پریشان کن منظر نامہ کے باوجود ملک میں اس وقت صرف مولانا فضل الرحمان کے احتجاج اور اسلام آباد بند کردینے کی دھمکی ہی اہم ترین خبر سمجھی جارہی ہے۔ اسی پر گفتگو کی جاتی ہے، کالم لکھے جارہے ہیں اور تبصرے ہورہے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیراعظم سے لے کر کابینہ کے اہم ترین وزیر بھی اسی خبر پر حیرت یا پریشانی کا اظہار کررہے ہیں۔ یوں تو گزشتہ شام سرکار کے تنخواہ دار علما کے ایک بھاری بھر کم وفد سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ اس دھرنے سے پریشان نہیں ہیں کیوں کہ مولانا فضل الرحمان ایک ہفتہ سے زیادہ دھرنا نہیں دے سکتے اور میں نے تو 126 دن جاری رہنے والے دھرنے کی قیادت کررکھی ہے۔ وزیر اعظم کے اسی قسم کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک دھرنا موڈ سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ یہ جاننے کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور نہیں ہیں کہ جب ایک سیاسی احتجاج ہی خبروں پر حاوی ہوجائے اور ملک کو درپیش دیگر معاملات پس پشت چلے جائیں تو اس سے حکومت کی کارکردگی کا متاثر ہونا اور ملکی حالات پر اثر مرتب ہونا لازمی ہے۔

یوں تو حکمران جماعت اور اپوزیشن پارٹیوں کو یکساں طور سے اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ سیاسی تصادم ملکی مفادات پر حاوی نہ ہوں لیکن حکومت پر اس کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے نام نہاد احتساب ایجنڈے اور اپنے سوا سب سیاسی اکابرین کو بدعنوان اور چور قرار دیتے ہوئے سیاسی مکالمہ اور مفاہمت کے سارے ردوازے خود ہی بند کئے ہیں۔ حتی کہ وزیر اعظم اہم آئینی امور کی انجام دہی کے لئے اپوزیشن لیڈر سے ملنا بھی اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران دو بار مولانا فضل الرحمان کے احتجاجی مارچ پر گفتگو کی ہے اور اجلاس منعقد کئے ہیں۔ ایک اجلاس اپنے مشیروں اور میڈیا منیجرز کے ساتھ منعقد کیا جس میں واضح کیا کہ کسی کو سیاسی مقاصد کے لئے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی مدرسوں کے طالب علموں کو ڈھال بنانا قبول کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سرکاری عہدوں پر فائز علما کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ دھرنے سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی علما کو دھرنے پر بات کرنے کے لئے بلایا ہے بلکہ وہ ان سے ’مدینہ ریاست‘ کے خدوخال پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس ملاقات کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں تھا کہ ملک کے مذہبی گروہوں کو مولانا فضل الرحمان کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت سے باز رکھا جائے۔

عمران خان جب خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوکر بے خوف ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی سیاسی کمزوری اور بدحواسی عیاں ہوتی ہے۔ وہ مذہب کے نام پر سیاست کو برا کہتے ہیں لیکن خود ڈھٹائی سے ’مدینہ ریاست‘ کا مذہبی حربہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن پارٹیوں پر سیاست میں مذہبی نعرے شامل کرنے کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم کے استعفی اور نئے انتخابات کے علاوہ کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا۔ انہوں نے اس دعوے کو بھی مسترد کیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے کی نیت سے جائیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے حتمی پروگرام اور مطالبوں کا اعلان 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں کریں گے۔

حکومت اور وزیر اعظم کے لئے سیاسی دباؤ سے نکلنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کو وہی احترام دیں جس کی توقع وہ خود اپنے لئے کرتے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن کو بھی سیاسی مطالبوں کو بریکنگ پوائینٹ پر لے جانے کی بجائے اعتدال اور توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ایسا ممکن ہوسکے تو عمران خان اسمبلی کو ’ڈیزل فری ‘ کہہ کر خوش نہیں ہوں گے اور پرویز خٹک کو سیاسی مواصلت کے لئے اپوزیشن کو ’کشمیر دشمن‘ نہیں کہنا پڑے گا۔ ورنہ کشمیر پر سودے بازی کا الزام لگتے اور اسے کوٹھے چڑھنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali