طبّی اخلاقیات اور پاکستانی ڈاکٹرز کا مخمصہ


\"khurramہفتہ بھر سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کررہی جس میں ایک نوجوان ڈاکٹر گلے میں اسٹیتھوسکوپ لٹکائے، سامنے دھرے سٹول پر ٹانگیں پھیلائے آرام دہ کرسی پر بیٹھا ہے اس کے سامنے ایک عمر رسیدہ بزرگ تقریباً رکوع کی حالت میں جھکے ہوئے ہیں۔ ساتھ میں تحریر ہے کہ: تعلیم اگر انسان بنا سکتی تو پِمز ھسپتال کا یہ ڈاکٹر کھڑا ہوتا اوربزرگ کرسی پر بیٹھا ہوتا۔ پس ثابت ہوا کہ انسانیت کا تعلیم سے کچھ لینا دینا نہیں۔\”

مجھ تک یہ پوسٹ میڈیکل کالج کے ایک سینئر پروفیسر کی وساطت سے پہنچی جو ڈاکٹروں کے اعلیٰ امتحانات کے ممتحن بھی ہیں۔ ان کے دوستوں کے زرین خیالات پڑھ کر ظاہرہوا کہ اس بدتمیز ڈاکٹر نے ہمارے معزز پیشے کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا لائسنس فوراً ضبط ہونا چاہئے اس کو لات مار کر نکال دینا چاہئے۔ رائے دینے والے کیونکہ سب ڈاکٹر تھے اس لئے جسم کے اس مقام کی نشاندہی بھی کردی گئی تھی جہاں لات کا اثر سب سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ محترم پروفیسر صاحب نے خود اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تشخیص بھی فرما دی کہ نئی نسل اپنے بڑوں کی تعظیم بالکل بھول چکی ہے۔ جس کا دوش بری تربیت کے ساتھ ساتھ نوجوان ڈاکٹروں کی تحریکوں (خصوصاً پنجاب میں) کو بھی جاتا ہے۔

ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ تصویر میں زیرِ بحث ڈاکٹر صاحب کا نقطۂ نظر بھی سامنے آگیا جس کے مطابق انہیں اپنی مصروف پیشہ ورانہ زندگی میں عمر رسیدہ مریضوں سے متعلق ایسے تلخ تجربات ہوچکے ہیں کہ اب وہ بزرگوں کے احترام کو مزید اہمیت دینا فضول امرخیال کرتے ہیں۔ ویسے بھی ان کے اعمال جانچنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ آخر میں انہوں نے سب کے حق میں دعائے خیر کی کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ ان کی اس وضاحت پر موجود کئی سو تبصروں میں جہاں ڈاکٹروں کی قلت، مریضوں کی زیادتی، مشکل اور طویل اوقاتِ کارکا تذکرہ دکھائی دیا وہیں کچھ ڈاکٹروں نے کسی بھی قیمت پر مریض سے بد تہذیبی کی مذمت بھی کی۔

\"doctor\"

امید ہے میرے ہم پیشہ دوست اس بات کو تعمیری تنقید ہی سمجھیں گے کہ پاکستان میں اطباء خصوصاً تجربہ کار اور مصروف معالجین جدید طبی اخلاقیات سے قطعاً ناواقف نظر آتے ہیں اور نو آموذ ڈاکٹروں کے لئے کوئی ایسی عملی مثال بن کر سامنے نہیں آتے جس کی تقلید کی جاسکے۔ گو مخلص اور ایماندار اطباء اب بھی موجود ہیں لیکن شاید آٹے میں نمک کے برابر۔ کسی مریض یا اس کے اہل خانہ سے حتیٰ کہ ڈاکٹروں سے بھی بات کریں تو ان کے پاس سنانے کے لئے سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں پیش آئے متعدد ناخوشگوار واقعات موجود ہوتے ہیں۔ کیا میں یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ پیشۂ طب روبہ زوال ہے اور اس کے عزت و وقار میں بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجوہات میں ریاست کا صحتِ عوام سے مجرمانہ اور دانستہ غفلت کا رویہ، پرائویٹ میڈیکل تعلیم میں مسلسل اضافہ، غیر معیاری طبی تعلیم، بین الاقوامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ڈاکٹروں پر سرمایہ کاری اور ایک کمزور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سب سے نمایاں ہیں۔ ہم اس وقت صرف طبی اخلاقیات پر بحث کریں گے۔

جدید طب کا ارتقاء پچھلے دو ڈھائی سو برسوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے جلو میں ہوا ہے۔ ڈاکٹر اور مریض کے مابین ایک اعلیٰ اور ارفع رشتے کی نزاکت کے پیشِ نظر زمانۂ قدیم ہی سے طبی اخلاقیات کو معالجین کے لئے لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا تھا۔ \’بقراط کا حلف\’ ایک زمانے تک ڈاکٹروں کے اخلاقیات کا رہنما اصول رہا لیکن گزشتہ چالیس برسوں میں جہاں ایک طرف علاج معالجہ کی سہولیات عام ہوتی گئیں وہیں بنیادی انسانی حقوق پوری دنیا میں تسلیم کرلئے گئے۔ ساتھ ساتھ یہ نظر آنے لگا کہ ڈاکٹر ادویات اور آلات بنانے والی کمپنیوں کے ایجنٹ بن کر نہ رہ جائیں چنانچہ اطباء کے ضابطۂ اخلاق پر کافی عرصہ سائنسی اور فلسفیانہ بحث چلتی رہی خلاصہ یہ نکلا کہ مریض کے حقوق کو محض معالج کے ان دعووں پر قربان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بہت باضمیر ہے، لالچی نہیں، اس کی نیت صاف ہے، وہ جذبۂ خدمت اور ایثار سے سرشار ہے، وہ خوفِ خدا رکھتا ہے اور بروزقیامت پکڑ سے ڈرتا ہے، وہ کسی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہے یا وہ جاہل مریض کا بھلا بہتر سمجھ سکتا ہے۔

کسی معاشرہ کی اخلاقی اقدار(مورالٹی) کو اس کے سماجی، تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات(ایتھکس) زرا مختلف ہوتے ہیں۔ فوجی، وکیل، صحافی، پولیس وغیرہ کے اپنے اپنے پروفیشنل ایتھکس ہوتے ہیں جن پر ڈاکٹرعمل پیرا نہیں ہوسکتے۔ جدید طب اہلِ مغرب کی دین ہے تمام ادویا، جدید آلات، طریقِ کار، تکنیک، آداب، اصول، کتب اور تحقیق وہیں سے درآمد ہوتے ہیں چنانچہ وہیں کے اخلاقیات(میڈیکل ایتھکس) کو طبی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔ گو یہ اصول سب سے پہلے امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن نے متعارف کرائے لیکن اب چین و برطانیہ سمیت دنیا بھر کے ممالک میں ان سے استفادہ کیا جاتا ہے یہ رہنما اصول مندرجہ ذیل ہیں:

\"doctor-2\" 1۔ مریض کی خود مختاری کا احترام ۔ اس اصول کے تحت ڈاکٹر پر واجب ہے کہ وہ مریض پر اپنا علاج تھوپنے کے بجائے اسے اس کے متعلق پوری پوری آگاہی دے۔ دوا یا آپریشن کے مثبت و منفی اثرات اور نتائج سے باخبر کرے۔ آخر آپ اپنی خراب موٹر کار مکینک کے پاس لے کر جاتے ہیں تو جب تک وہ مطمئن نہ کردے کار اس کے حوالے نہیں کرتے۔ صحیح الدماغ مریض کو یہ بھرپور حق حاصل ہے کہ وہ علاج کروانے سے جزوی یا کلی طور پر انکار کردے۔ ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ حقیقت بیانی کرے اور مریض کی رازداری کو ہر صورت میں قائم رکھے۔ مریض کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اپنے میڈیکل ریکارڈ تک رسائی حاصل کرلے جس میں اس پر ہونے والے تمام ٹیسٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔

2۔ ضرر پہنچانے سے گریز کرنا۔ یعنی ایسے کسی اقدام سے جس سے مریض کی کیفیت مذید بگڑ سکتی ہو اس سے بچتے ہوئے ضرورت ہو تو کسی دوسرے معالج سے ماہرانہ رائے لے لی جائے۔

3۔ مریض کی بھلائی کو مقدم جاننا۔

4۔ انصاف۔

 خدمات فراہم کرتے ہوئے خود کوجنس، عقیدہ، رنگ، نسل، وضع و قطع۔ قبیلہ، سیاسی وابستگی، صنفی میلان، مالی حیثیت۔ الغرض ہر طرح کی تفریق اور تعصب سے بالاتر رکھنا۔

5۔ مریض کی پرائویسی، عزتِ نفس، ثقافتی اور مذہبی اقدار کا مکمل احترام اور تحفظ۔

برطانیہ میں ڈاکٹروں کی تعلیم و تربیت، لائسنسنگ اور سرگرمیوں کے انضباطی ادارے کا نام جنرل میڈیکل کونسل ہے جو ہر چند سال کے بعد \’اچھی میڈیکل پریکٹس\’ کے نام سے ڈاکتروں کو ہدایات فراہم کرتا ہے۔ جن کے مطابق \”مریض کے لئے دوا لکھتے، اس کا علاج کرتے اسے ریفر کرتے یا اس کے لئے کسی خاص ضروریات کا مطالبہ کرتے ہوئے کوئی ذاتی مفاد آڑے نہیں آنا چاہئے\” اور \”مریضوں، ساتھ کام کرنے والوں اور دوسروں سے نہ ایسی ترغیب، تحائف یا مہمان نوازی کا خیرمقدم نہیں کیا جاسکتا جسسے دوا لکھنے، علاج یا ریفر کرنے سے متعلق فیصلہ متاثر ہوتا ہو\”

ابھی پچھلے ہی سال جنرل پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ مریضوں سے وصول کئے ادنیٰ سے ادنیٰ تحفے مثلا\” مرّبہ کی بوتل کا بھی تحریری ریکارڈ رکھیں۔

جنرل میڈیکل کونسل سے رجسٹرد ڈاکٹرز کی کل تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ 2014ء میں اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر 119 ڈاکٹرز کو لائسنس کی منسوخی یا کچھ مدت معطلی کی سزا ملی۔ ان میں سے 16 کا تعلق ان کی خانگی زندگی سے تھا جس میں جنسی تعلقات، بددیانتی، تشدد اور شراب پی کی گاڑی چلانے کے واقعات شامل تھے۔ جبکہ مقامِ ملازمت پر ہونے والی غلطیوں میں مریض یا ہمراہ کام کرنے والوں کے ساتھ نامناسب مراسم اور بددیانتی کے واقعات پیش پیش تھے۔ اس سخت ترین سزا کا موجب بننے والے واقعات میں علاج معالجہ کی خطاؤں کے واقعات صرف 19 تھے۔ بد دیانتی کے کیسز میں بھی لاکھوں کا غبن نہیں کیا گیا تھا بلکہ چھوٹے موٹے نسخے(پرسکرپشن) لکھے گئے تھے۔

برطانیہ میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز میں کوئی چار فیصد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں جن کو یہاں کے اصول و ضوابط اور اخلاقیات پر عمل کرتے ہوئے کوئی دقت پیش نہیں آتی اور انہیں برطانوی معاشرہ میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹروں کو اتنے سخت ضابطۂ اخلاق پر عمل کرکے کیا ملتا ہے اس کا اندازہ \’موری سروے\’ سے ہوتا ہے جو سنۂ 1983 سے ہر سال پیشہ ور گروپس پر عوام کے اعتماد کی فہرست شائع کرتا ہے۔ اس کے مطابق عوام کی اکثریت سب سے زیادہ بھروسہ ڈاکٹروں پر کرتی ہے۔ یہ شرح مسلسل دیگر معزز پیشوں مثلاً ٹیچر، پروفیسر، سائنس دان اور ججوں سے زیادہ ہے۔

 انسا نی اخلاقی اقدار ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں یہ تصور کہ فرد اپنی انفرادی ایمانداری سے کسی شعبۂ زندگی میں بڑی تبدیلیاں لا سکتا ہے خیالِ خام ہے پاکستان میں پیشۂ طب میں پھیلی بے ضابطگیوں کا حل یہی ہے کہ لائق اور اصول پرست افراد پر مشتمل ایک سائنٹفک اور بااختیار پی ایم ڈی سی تشکیل دی جائے جو ایک جدید ضابطۂ اخلاق بنا کر اس پیشہ کا احترام بحال کرے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments