خواتین پر جذباتی تشدد: ایک بڑا ازدواجی مسئلہ


جن لوگوں نے پرائیویٹ ٹی وی چینل کا ڈرامہ ”خاص“ دیکھا اور سمجھا ہے، وہ (Emotional Abuse) یعنی بیویوں پر جذباتی تشدد جیسے بڑے ازدواجی مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ڈرامہ یا کہانی کا اختتام تو مطلوبہ فارمیٹ کے مطابق عموماً خوشگوار اور تسلی بخش ہوتا ہے۔ لیکن حقیقی زندگی اس کے برعکس ہے جہاں عورت کو بعض اوقات تمام عمر اسی اذیت میں گذارنی پڑتی ہے۔ بیوی کو زبان سے تکلیف پہنچانا؛ رشتہ داروں بلکہ غیروں کی موجودگی میں بھی اس کا مذاق اڑانا اور عزتِ نفس کو مجروح کرنا؛ اسے مرد سے کمتر ثابت کرنے کی پوری کوشش کرنا؛ ستم بالائے ستم سسرالی خواتین کی زیادتیاں وغیرہ ایسی پریشانیاں ہیں جن کا سامنا ہماری عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو ہے۔ اس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ، احساسِ کمتری، اور عزتِ نفس کی کمی جیسے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں عورت کوئی غلط فیصلہ یا اقدام بھی کر سکتی ہے جو اس کی ذات یا اس کے خاندان کے مستقبل کے لئے خطرناک ہو۔

ہمارے ہاں لاکھوں عورتیں جذباتی اور ذہنی تشدد کو اپنا مقدر سمجھتے ہوئے ایک ذلت آمیز اور اذیت ناک ازدواجی رشتے کے ساتھ گھسٹتی رہتی ہیں۔ ایسی عورتوں کو معاشرے، عزیز و اقارب، اور بالخصوص خاندان کی طرف سے سہارا اور حمایت نہ ملنا قابلِ افسوس ہے۔ لاکھوں والدین بیٹی کو ایک زہریلے ازدواجی رشتے سے نجات دلانے کی بجائے یہ رونا رونا شروع کر دیتے ہیں کہ طلاق شدہ بیٹی کا بوجھ کیسے اٹھائیں۔ یہ بجا ہے کہ ہمارے ہاں عورت کے لئے طلاق ایک بڑا داغ ہے، بالخصوص درمیانے طبقے میں۔ لیکن کیا محض عدم قبولیت کے خوف سے یا دوسروں کی خاطر عورت اپنی زندگی، مستقبل، اور ذات تک کو قربان کرتی رہے؟ اس سوال کا واحد جواب ”نہیں“ ہے۔

ہم یہ حوالہ تو خوب دیتے ہیں کہ دینِ اسلام نے عورت کو ہر رشتے میں قابلِ احترام مقام دیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ہمارے مرد بیوی کو کتنی عزت دیتے ہیں، قارئین بخوبی جانتے ہیں۔ کتنے فیصد عورتوں کو ازدواجی حقوق کا شعور دیا جاتا ہے؟ اور کتنے فیصد باشعور خواتین ہر طرح کے معاشرتی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک ناقابل ِ قبول ازدواجی رشتے کو ختم کر دینے کی ہمت کر پاتی ہیں؟ کتنے فیصد عورتیں ڈرامہ اور فلم سے سبق سیکھ کر اپنے رویئے کو درست کرتی ہیں؟ بدقسمتی سے یہ تعداد مایوس کن حد تک کم ہے۔ ہمارے ہاں کہانیوں کو غیر حقیقی سمجھ کر اِن سے سبق حاصل نہیں کیا جاتا۔ بس تفریح اور وقت گزاری کے لئے دیکھا اور بھول گئے۔

اگر ہماری عورتیں جذباتی تشدد کو ایک مسئلہ سمجھیں اور سمجھوتہ کرنے کی بجائے خود کو ”قابلِ احترام“ تسلیم کروانے کی کوشش کریں تو معاملات کسی نہ کسی حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔ اس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ جب شوہر بلاوجہ اور بلاجواز بیوی کی عزتِ نفس اور جذبات کو مجروح کرے تو وہ خاموشی اختیار نہ کرے۔ بلکہ اُسے احساس دلائے کہ بیوی بھی اتنی ہی ”قابل عزت“ ہے جتنا کہ شوہر۔ جب تک وہ احساس نہ دلائے گی، شوہر بدستور اُسے تضحیک کا نشانہ بناتا رہے گا۔ اور ہوتے ہوتے ایک دن ”بے عزتی اور مذاق“ اسے اس مقام پر لے آئے گا جہاں احترام اور عزتِ نفس جیسے احساسات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ جس عورت کی عزت اس کا شوہر نہ کرے، اسے سسرال اور میکے میں بھی عزت نہیں ملتی۔ کہا جاتا ہے کہ ضرور اِسی میں کوئی خرابی ہے جو شوہر اِس کی عزت نہیں کرتا۔ عورت قصوروار ہے یا نہیں، یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوئی زحمت نہیں کرتا۔ ”جس گھر میں تمہاری ڈولی جا رہی ہے، اب وہاں سے تمہارا جنازہ ہی آئے“۔ سارا فساد اِس جاہلانہ ذہنیت کا ہے۔ نبی اکرم ؐ نے تو حضرتِ فاطمۃ الزہراۃ ؓ  کو رخصت کرتے وقت یہ جملہ نہیں کہا تھا۔ تو پھر ہم نے اپنی بیٹیوں کی زندگی کیوں عذاب بنا رکھی ہے؟

ہماری عورت کے لئے ذلت یہ ہے کہ شوہر ”مجازی خدا“ ہوتا ہے۔ اُسکے آگے زبان درازی اور نافرمانی کرنے والی عورت پر لوگ (معاذ اللہ) جہنمی کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں کسی کو جہنمی قرار دے دینا کس قدر آسان ہے۔ ہاں مگر بدزبان اور بیوی کو ایذا پہنچانے والے مرد کے لئے اسلام میں کیا حکم ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔ میری ناقص فہم کے مطابق، اسلام نے ہرگز عورت کو پابند نہیں کیا کہ وہ اپنی ہتک اور شوہر کی زہریلی زبان کو خاموشی سے سہتی رہے۔ جس رشتے میں احترام نہ ہو، اُسے ختم کر دینا ہی واحد حل ہے۔ جس طرح عورت کو چھوڑ دینے کا حق مرد کو ہے، اسی طرح مرد کو چھوڑ دینے کا حق عورت کو بھی ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ عزت کی نہیں، کروائی جاتی ہے۔ تو پھر عورت بھی اٹھے اور شوہر سے اپنی عزت کروائے۔ یہ اُس کا بنیادی انسانی حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).