وہ قوم جو اپنے وزیر اعظم قتل کرتی ہے


برطانیہ کے ایک جریدے نے اپریل 1979 میں موجودہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر یہ سرخی جمائی تھی کہ ’ہم اپنے وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دیتے ہیں‘ ۔ اس سانحہ کو چالیس برس بیت چکے ہیں۔ لیکن اس قوم کے مزاج اور اس پر مسلط نظام کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

سابق صدر آصف علی زرداری اس وقت نیب کی حراست میں ہیں۔ احتساب عدالت انہیں لاحق سنگین بیماریوں کے پیش نظر مناسب دیکھ بھال کی ہدایت کرتی رہی ہے لیکن انہیں آج اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں طبی معائنہ کے لئے لایا گیا۔ حکومت کو بظاہر یہ فیصلہ گزشتہ رات تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے مقبول لیڈر نواز شریف کی حالت اچانک بگڑنے کے بعد لاہور سروسز ہسپتال لے جانے کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔ ورنہ سیاسی انتقام کے سخت گیر مزاج کی وجہ سے مخالف سیاسی لیڈروں کے سیاسی مؤقف کو ہی نہیں بلکہ ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کی مسلسل کوششیں کی جاتی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان اس حوالے سے اپنی پارٹی اور ساتھیوں کی قیادت کرتے ہیں۔ وہ اپوزیشن لیڈروں کے خوف میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جیلوں میں بند لیڈروں پر الزام تراشی اور ان کو قانونی طور پر حاصل سہولتیں ختم کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ وہ جولائی میں دورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن کے ایک جلسہ سے خطاب کے دوران بھی کرچکے ہیں۔

نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے 7 برس قید کی سزا دی تھی۔ اسی پاداش میں وہ کوٹ لکھپت جیل میں اسیر تھے کہ دس روز پہلے احتساب بیورو نے اچانک انہیں گرفتار کرکے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا۔ اس طرح کسی نظیر کے بغیر انہیں جیل سے نیب کی حراست میں منتقل کردیا گیا جہاں ان سے چوہدری شوگر ملز کیس میں تفتیش کی جارہی ہے۔ تاہم حکومت کو خوش کرنے کے جوش میں نیب کے کارپردازوں کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہی نہیں ہؤا کہ ان کے زیر حراست شخص متعدد بیماریوں کا شکار ہے۔

اسے مسلسل طبی سہولتوں اور ڈاکٹروں سے مشوروں کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو بھی ملنے سے روکا جاتا رہا۔ البتہ گزشتہ روز یہ اجازت ملنے کے بعد ڈاکٹر عدنان نے ہی نواز شریف کا خون ٹیسٹ لیا اور بتایا کہ ان کے جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ انہیں رات گئے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں اب ان کی حالت بہتر بتائی جا رہی ہے لیکن ان کا جسم بدستور پلیٹ لیٹس کی قلت کا شکار ہے جن میں اضافے کے لئے انہیں دو بار پلیٹ لیٹس کی میگاکٹ لگائی جا چکی ہے۔

اس وقت ملک کے دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے علاوہ سابق صدر آصف زرداری بھی نیب کی حراست میں ہیں۔ مریم نواز سمیت شریف خاندان کے متعدد ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما بھی نیب نے پکڑے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جارہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے آزادی مارچ کے اعلان اور اصرار کے بعد حکومت کے علاوہ نیب بھی پوری مستعدی سے جمیعت علمائے اسلام کے لیڈروں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔

اشارہ دیا گیا ہے کہ نیب کا پہلا نشانہ خیبر پختون خوا کے سابق وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی ہوسکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب جمیعت اور حکومت کے درمیان سیاسی تصادم کی فضا موجود ہے، نیب کی طرف سے جمیعت کے لیڈروں کے خلاف سر گرم ہونے کے اشارے اس احتساب ادارے کی رہی سہی ساکھ اور شہرت کو بھی لے ڈوبیں گے۔

عمران خان اور ان کے وفاداروں کے سوا پورا ملک یہ مانتا ہے کہ نیب کو سیاسی لیڈروں کے خلاف انتقامی کارروائی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ جن لوگوں کو نیب کی طرف سے جھوٹے سچے مقدمے قائم کرکے گرفتار کرنا ممکن نہیں ہوتا انہیں رانا ثنا اللہ کی طرح منشیات کے من گھڑت مقدمے میں دھر لیا جاتا ہے یا پھر کیپٹن صفدر کی طرح نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں پکڑ لیاجاتا ہے۔ کسی بھی حکومت کے لئے یہ ہتھکنڈے نیک شگون نہیں ہوسکتے لیکن جو حکومت جمہوری طریقے سے منتخب ہوکر برسر اقتدار آنے کی دعویدار ہو، وہی اگر بنیادی حقوق سے انحراف اور آزادی رائے کو آزار سمجھنے لگے گی تو وہ اسی شاخ کو کاٹنے کا سبب بنتی ہے جس پر اس کا آشیانہ ہوتا ہے۔

عمران خان نوجوان نسل کی حمایت سے اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ نیا پاکستان اور مدینہ ریاست بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ان کی باتوں کو سچ سمجھا جائے لیکن خود کو مخلص ثابت کرنے کے لئے انہیں جمہوری لیڈر کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ کسی بادشاہ کے اختیار کی خواہش کرنے سے وہ اپنے جمہوریت پسند ہونے کے شواہد مٹانے کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ اب تک جس ’نئے پاکستان‘ کا نمونہ دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں اس میں اختلاف رائے کو دبانے، مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے ہتھکنڈے نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ جس مدینہ ریاست کا وہ حوالہ دیتے ہیں، اس کی وسیع القلبی اور انسان دوستی بھی عمران خان کی گفتگو یا ان کی حکومت کے طریقہ کار میں دکھائی نہیں دیتی۔

پاکستان کی مختصر تاریخ سیاسی مفاد کے لئے عدالتوں سمیت اداروں کو استعمال کرنے کی افسوسناک مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس وقت جو سیاسی منظر نامہ پیش نظر ہے، اس میں ماضی میں کی جانے والی تمام غلطیوں کے نشان نمایاں ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے ہی جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کے بارے میں بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ گزشتہ روز جسٹس قاضی اور دیگر کی درخواستوں پر غور کرنے والے دوسرے بینچ کو توڑنے کا اعلان کیا گیا لیکن جب مختلف الخیال وکیلوں کی طرف سے اس طریقہ کو غیر آئینی اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے برعکس بتاتے ہوئے احتجاج ہؤا تو سپریم کورٹ نے اپنا ہی فیصلہ تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔

غلطی کی اصلاح کرنا اگر درست اقدام ہے تو یہ سوال بھی اپنی جگہ پر پہاڑ کی مانند کھڑا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ آئین کی پاسداری اور عدل کی فراہمی میں اپنا کردار ا ادا کرنے میں کیوں ناکام ہورہی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ ان شہری آزادیوں کی پامالی پر کیوں خاموش ہے جن کی ضمانت ملک کا آئین دیتا ہے۔ نیب نے مختلف مقدمات میں ملک کی اہم ترین سیاسی قیادت کو گرفتار کیا ہے لیکن سپریم کورٹ کو اس طریقہ کار کو تبدیل کروانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ عدالت عظمیٰ نواز شریف کو سزا دینے والے جج کو بدکردار اور باعث شرم قرار دیتی ہے لیکن نواز شریف کے خلاف اس معتوب جج کے فیصلے کو برقرار رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔

ماضی سے اگر سیاست دانوں اور عسکری اداروں نے سبق نہیں سیکھا تو سپریم کورٹ نے بھی خود تبدیل نہیں کیا ہے۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے دو سابق چیف جسٹس صاحبان افتخار چوہدری اور ثاقب نثار، ذاتی جاہ اور عزائم کے لئے متعدد غلط کاریوں کا شکار ہوئے تھے۔ ان میں جسٹس (ر) ثاقب نثار کی طرف سے ڈاکٹر سعید اختر کی نگرانی میں کام کرنے والے پاکستان کڈنی اینڈ لیور اسٹیٹیوٹ کے خلاف فیصلہ کے بارے میں اب یہ اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں کہ انہوں نے یہ فیصلہ اپنے ڈاکٹر بھائی کے فائدے کے لئے کیا تھا۔ اسی طرح ڈیم فنڈ قائم کرنے کا سستی شہرت کا اسٹنٹ ان کے دور کی المناک نشانی ہے۔ اب نہ تو سابق چیف جسٹس اپنی پوزیشن واضح کرتے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ اپنے سابق سربراہ کی غلطیوں کی اصلاح کا ارادہ رکھتی ہے۔

تاہم پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے دامن پر سیاہ ترین دھبہ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینا تھا۔ اس وقت کے ججوں نے انصاف کا خون کرتے ہوئے 3۔ 4 کی اکثریت سے بھٹو کو سزا دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ نا انصافی اس وقت کے آمر ضیا الحق کو خوش کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ بدنصیبی سے ضیا الحق کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے والی نسل اب تک ملکی نظام کو اپنی پکڑ میں لئے ہوئے ہے لیکن اپنے ہی ایک سابق چیف جسٹس اور بھٹو کے خلاف فیصلہ دینے والے جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کی گواہی کے باوجود بھٹو کو بعد از مرگ انصاف دینے کی کوئی خواہش سپریم کورٹ نے ظاہر نہیں کی۔ شاید اسی لئے اپنے لیڈروں کو اذیت دینے اور قتل کرنے کی روایت کو موجودہ دور میں بھی زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔

نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف عائدکیے جانے والے سارے الزامات دہائیوں پرانے ہیں۔ اس کے باوجود اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ آگے بڑھنے کے لئے ماضی کی غلطیوں کی اصلاح اور جرائم کی سزا دینا اہم ہے تو بھی اس بات کا کوئی عذر نہیں ہے معمر اور شدید علیل سابق وزیر اعظم اور صدر کو جیل کی کوٹھری یا نیب کے انتظامات میں قید رکھا جائے۔ ان کے خلاف مقدمات کے حتمی اور منصفانہ فیصلے ہونے تک اگر انہیں کسی نہ کسی وجہ سے قید رکھنا ہی مقصود ہے تو بہتر ہو گا کہ ان کے گھروں کو سب جیل قرار دے کر انہیں وہاں نظر بندکردیا جائے۔ اس طرح حکومت الزام سے بھی بچ جائے گی اور کسی بے گناہ کو غیر ضروری طور پر قید و بند کی صعوبت بھی برداشت نہیں کرنا پڑے گی۔ تاہم حکومت اپنا ہر اختیار سابقہ حکمرانوں کو عاجز کرنے اور دیوار سے لگانے کے لئے استعمال کررہی ہے۔ اور اسے انصاف کا نام دیا جارہا ہے۔

عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ اگر ان کی نفرت اور انتقامیجذبہ کی وجہ سے نواز شریف، آصف زرداری یا کسی دوسرے لیڈر کو کوئی گزند پہنچتی ہے تو وہ ذاتی طور اس کے الزام سے بچ نہیں سکیں گے۔ اور دنیا ایک بار پھر یہی کہے گی کہ ’یہ وہ قوم ہے جو اپنے ہی وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا دیتی ہے‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali