یہ سیکولر پاکستان ہے… اپنی غیرت کنٹرول میں رکھو


\"asim-hafeez\"

قندیل بلوچ کی ”شہادت“ رنگ لائی ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کی سختی سے روک تھام کا قانون منظور کر لیا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو کچھ عرصہ قبل میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلائی گئی تھی جس میں قندیل بلوچ اور چند اور لڑکیوں کے قتل کو غیرت کے نام پر قرار دے کر اس حوالے سے سخت قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی تیز ترین کارکردگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ اتنے کم عرصے میں اس قانون کو منظور کر لیا گیا ہے۔یعنی اب اگر کوئی والد ،بھائی یا کوئی اور رشتہ دار کسی بھی صورت میں اپنی غیرت کا مظاہرہ کرے گا تو اسے معافی نہیں ملے گی ۔اگر کبھی بھی آپ کو لگے کہ کوئی ایسی حرکت ہو رہی ہے کہ جس سے آپ کی یا آپ کے خاندان کی عزت کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو فوری طور پر آنکھیں اور کان بند کرکے وہاں سے نکل جائیں کیونکہ اب پاکستان میں اس قسم کی غیرت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سرکار کا حکم یہی ہے کہ اپنی اپنی غیرت سنبھال کر رکھیں۔

ارض پاک میں سیکولر حلقے جب کوئی قانو ن سازی کرانا چاہتے ہیں تو بھرپور میڈیا مہم چلائی جاتی ہے ، دو تین واقعات جنم لیتے ہیں جن کی آڑ میں دینی حلقوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جاتا ہے ، مغربی ممالک کا سفارتی دباؤ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ، چند این جی اوز سڑکوں پر موم بتیاں جلاتی ہیں اور سول سوسائٹی کے روپ میں مخصوص گروہ مہم چلاتے ہیں ، ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ حدود آرڈیننس سمیت کئی مواقع پر یہی طریقہ کار آزمایا جا چکا ہے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل اور قانون توہین رسالتﷺ کو ختم کرنے کے مطالبے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد دھرائے جاتے ہیں۔ جس مسئلے پر ردعمل ذرا نرم ہوتووہ کاررنامہ سرانجام دے دیا جاتا ہے جب کبھی ردعمل سخت آ جائے تو تھوڑی دیر کے لئے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔

اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ کہ اشتعال میں آکر کسی کو قتل کرنے کی ہرگز حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اسلام بھی ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ شادی بیاہ کے معاملے میں لڑکی کی مرضی کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ دراصل ہندوانہ رسومات کے زیر اثر ہمارے معاشرے میں ذات برادری اور بعض فرسودہ خیالات کے تحت مسائل پیدا ہو رہے ہیں جہاں لڑکی کی جانب سے ذرا سے بھی اظہار کو ” بغاوت “ قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے مسائل انتہائی خوش اسلوبی سے حل کئے جا سکتے ہیں ۔اس حوالے سے ہمیں قوانین کی بجائے سوچ کو بدلنے کی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ایسی قانون سازی مقدس رشتوں کے درمیان غلط فہمیوں اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی ممالک سزائے موت اور دیگر سخت سزاؤں کے انتہائی مخالف ہیں بلکہ آئے روز ان کے فنڈز پر چلنے والی این جی اوز بھی پھانسیوں کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہیں ۔ لیکن اس قانون کے بارے میں سب نے پینترا بدلا ہے حتیٰ کہ ایم کیو ایم کے ایک رکن اسمبلی نے تو بل میں عمر قید کی سزا پر اعتراض بھی کیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ صرف پھانسی کی ہی سزا ہونی چاہیے ۔ آئین پاکستان کے دیگر قوانین کے برعکس اس بل میں معافی کی آپشن یکسر ختم کر دی گئی ہے اور ورثا قاتل کو قصاص یا کسی بھی اور صورت میں معاف نہیں کر سکتے۔اب یہ علمائے کرام ہی بتا سکتے ہیں کہ شریعیت کی روشنی میں ایسا ممکن بھی ہے کہ نہیں؟

گستاخی معاف، اہل اقتدار اور ملک کے باشعور حلقوں سے ایک سوال ہے: کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ لوگ بیٹیوں کو قتل کرنے کے لئے پیدا کرتے ہیں؟ ۔کیوں ہمیشہ باپ اور بھائی کوقاتل اور ظالم کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے؟ تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی یونیورسٹیز میں طالبات کی تعداد ساٹھ فیصد سے زائد ہے۔ یعنی لڑکیاں میڈیکل، ٹیکنالوجی، سوشل سائنس، قانون سمیت تمام شعبہ جات میں اعلی ترین تعلیم حاصل کرر ہی ہیں ۔ ان میں سے دو فیصد بھی ایسی نہیں ہوں گی کہ جو اپنے خرچے پر پڑھ رہی ہوں۔ ہر ایک کو ان کے باپ نے ان مہنگے اداروں میں بھیجا ہے یا کوئی بھائی دن رات محنت کرکے بہن کے تعلیمی اخراجات برداشت کرر ہا ہو گا۔ کیا باپ اور بھائی اپنے وسائل ان لڑکیوں پر اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ بعد میں ان کو قتل کر دیا جائے؟

اس طرح کی قانون سازی نہ صرف خاندانی نظام کی تباہی کا باعث بنتی ہے بلکہ خونی رشتوں کے درمیان اعتماد اور تقدس کو بھی ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ ارض پاک میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ہونے والی قانون سازی نے خاندانی نظام کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ حقوق نسواں بل، حدود آرڈینس اور اب اس غیرت کے نام پر بل کی آڑ میں ایسا اہتمام کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی صورت میں معاشرے میں پھیلتی بے راہ روی اور مغربی روایات کے پروان چڑھنے میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ اس قسم کی قانون سازی سے کیا نتائج سامنے آئیں گے؟ یقینا خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا۔ خاندانی نظام مقدس رشتوں کی بنیاد پر چلتا ہے، ماں باپ اور بہن بھائی ایک دوسرے کے لئے قربانیاں دیتے ہیں، ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے: اب اگر ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ محنت مشقت سے پرورش کرنے والا باپ کسی بھی موقعے پر اپنی اولاد کو اچھے برے کی تمیز نہ سیکھا سکے یا انجانے میں کسی گڑھے میں گرتی اپنی اولاد کو روک بھی نہ سکے تو پھر وہی ہوگا کہ جو یورپ امریکہ میں ہو رہا ہے۔ باپ اولاد کو بوجھ سمجھے گا اور بچپن میں اسے کسی بورڈنگ سکول اور بلوغت کے بعد گھر سے باہر اپنی زندگی گزارنا ہوگی ۔ ایسی صورت میں کوئی باپ اپنے وسائل اولاد پر خرچ ہی نہیں کرنا چاہے گا اور نہ ہی گھر میں رکھناپسند کرے گا۔

نام نہاد آزادی نسواں کے نقارے بلند کرنے والی خواتین کو ذرا س بارے بھی غور کرنا چاہیے کہ جب باپ کی شفقت کا سایہ اور تعلیم، رہائش، خوراک اور دیگر ضروریات کے لئے وسائل نہ ملیں گے تو پھر زندگی کیسی ہوگی؟ اگر کسی کو شک ہو تو یورپ و امریکہ میں ایسی ہی زندگی گزارتی لڑکیوں سے احوال پوچھ لیں کہ ان کے لاڈ کون اٹھاتا ہے؟ انہیں تعلیم و خوراک کے لئے کتنے کتنے گھنٹے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے؟ کیا انہیں بھی بڑے بڑے ہوٹلوں میں سجی سجائی تقریبات میں خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کا ٹائم بھی ملتا ہے کہ نہیں؟ دوسری جانب ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ماں باپ ، بہن بھائیوں اور خاندان کی مخالفت کرکے کسی انجان کے دکھائے خوابوں کی اسیر ہوکر گھر بار چھوڑ دینے والی لڑکیاں کونسا سکھ پاتی ہیں؟ اگر کسی کو تحقیق کرنی ہوتو جا کر دیکھے کہ زیادہ تر کچھ ہی عرصے بعد کسی دارالامان میں زندگی کی تلخیوں کی چکی میں پس رہی ہوتی ہیں۔ ماں باپ اور بھائی تو مجرم ٹھہرے کہ جو رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر ایسا ہے کہ ان لڑکیوں کی خوشگوار زندگی کی ضمانت کے لئے بھی کوئی قانون سازی ہونی چاہیے؟ جب ان کی اور خاندان کی عزت کو پامال کرکے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے تو پھر مجرم کون ہوتا ہے؟ کیا میڈیا جو ان واقعات کو چھالتا ہے یا وہ این جی اوز جو پلے کارڈز لے کر احتجاج کرتی ہیں؟ پھر کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا؟ ان کی زندگی کے عذاب کی پھر کوئی کہانی نہیں سنتا اور نہ ہی کوئی میڈیا اس بارے بات کرنا پسند کرتا ہے؟ خواتین کو خود بھی اس بارے غور کرنا چاہیے کہ انہیں متاثر کرنے کے لئے لگائے جانے والے کھوکھلے نعروں اور دکھائے جانے والے خوشنما خوابوں کی کچھ حقیقت بھی ہے یا یہ صرف انہیں مصنوعات کا گاہک بنانے اور اپنی طرز معاشرت میں پھنسانے کے لئے رچائے جانیوالے ڈرامے ہیں؟ کیا ہم نے واقعی معاشرتی بحران کا شکار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ کیا ہمارے صاحب اقتدار اور باشعور حلقے یہ طے کر چکے ہیں کہ ہم نے خاندانی نظام کا طوق اتارپھینکنا ہے؟ کیا ترقی کا زینہ صرف مغربی روایات کو ہی سمجھ لیا گیا ہے؟ کیا ہم اپنے سماجی اور معاشرتی مسائل اپنی روایات اور عزت و احترام کے رشتوں کے ذریعے حل نہیں کر سکتے؟ کوئی احمق ہی معاشرے میں خواتین کے حقوق اور ان کے کردار سے انکار کر سکتا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کا مکمل خاکہ وہی ہے کہ جو سیکولر مغربی مفکرین نے پیش کیا ہے۔ جس پر مغربی معاشرے کو کھڑا کیا گیا ہے۔ ہم کیوں ان کے بچھائے جال میں پھنس کر ایکدوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟ کیا ہم اپنے معاشرتی و سماجی مسائل حل کرنے کے لئے کوئی ایسا حل نہیں ڈھونڈ سکتے کہ جو ہماری دینی و خاندانی روایات کے مطابق ہو۔

معاشرے میں شدت پسندی اور فرسودہ روایات سے انکار نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ بیرونی اشاروں پر اپنے سماج کو ہی بدل کر رکھ دیا جائے۔ جی ہاں: ہمیں اپنے معاشرے میں خواتین کوباعزت مقام دلانے کی مہم چلانی ہے، انہیں مختلف صورتوں میں محروم رکھنے کے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہے، ان کے حقوق کی آواز بلند کرنی ہے، ان کی بات کو سننا ہے، انہیں معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے بہترین مواقع فراہم کرنے ہیں، سماج کی بہترین اور آئندہ نسل کی اصلاح کے لئے انہیں عظیم ترین کردار ادا کرنا ہے، خاندانی نظام کی مضبوطی اور بگاڑ کو ختم کرنے کے لئے انہیں قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کے لئے کوشش کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش ہے کہ ہر ایک باپ، ہر بھائی، ہر رشتہ دار کو ہی غلط، قاتل اور ظالم نہ سمجھ لیا جائے۔ ہمارا معاشرہ خواتین کے حوالے سے کچھ اتنا بھی برا نہیں ہے۔ جہاں چند تلخ اور افسوسناک واقعات ہوتے ہیں وہیں اکثریت ایسے گھرانوں کی بھی ہے کہ جہاں عورت کو بیٹی، بیوی ، ماں اور دیگر روپ میں انتہائی معزز مقام دیا جاتا ہے۔ ان پر وسائل لٹائے جاتے ہیں۔ ان کے لاڈ اٹھائے جاتے ہیں اور ان کی خاطر قربانیاں تک دی جاتی ہیں۔

 کیا ہمارے قانون سازوں نے اس بارے بھی کچھ غور کیا ہے یا کہیں سے آئی ڈکٹیشن پر بس قانون پاس کرنے کی ہی جلدی کی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments