حافظ حمداللہ کی شہریت، آزادی اظہار اور آزادی مارچ


سرکاری اداروں کی پھرتی اور مستعدی کے بارے میں یہ بات البتہ عام شہری کو سمجھ نہیں آئے گی کہ اگر حافظ حمدللہ نام کا کوئی شخص ’اجنبی‘ ثابت ہوجاتا ہے اور نادرا اس بارے میں ’ٹھوس‘ ثبوت جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا تاکہ اس غیر ملکی کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کو روک سکے تو اس نے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے پیمرا کو مطلع کرنے سے پہلے عوام الناس کو بتانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی کہ کون سا شخص پاکستانی کے بھیس میں ان کے ساتھ دھوکہ کرتا رہا ہے؟

حافظ حمدللہ اب میڈیا کو بتا رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان پاکستانی ہے۔ ان کے والد پاکستانی تھے اور حکومت پاکستان کے تنخواہ دار ملازم رہے تھے۔ وہ خود پاکستان ہی کے علاقے میں پروان چڑھے تھے لیکن نادرا نے ان سے براہ راست یہ سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ 31 اکتوبر قریب آ رہا تھا اور حافظ حمدللہ کے قائد مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ سر پر کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کوئی ایسا انتظام کرنا ضروری تھا کہ مولانا حکومت کو ہراساں کرنے سے پہلے خود پریشان ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی کفایت اللہ کو لوگوں آزادی مارچ میں شرکت پر اکسانے کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔

اگر آزادی مارچ کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے تو وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی سرکاری کمیٹی کے سب ارکان کو بھی پکڑا جائے۔ انہوں نے ایک روز پہلے آزادی مارچ کو اسلام آباد تک آنے کا عہد کر کے اس احتجاج کو قانونی قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ اعتراف بھی حکومت مخالف احتجاج میں شرکت کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہی کے مترادف ہے۔ ہو سکے تو مستعد پولیس افسر وزیر اعظم عمران خان سے بھی تفتیش کرلیں کہ انہوں نے آزادی مارچ کو کس طرح جائز جمہوری حق قرار دیا ہے۔

ایسا کرتے ہوئے پولیس افسر خاطر جمع رکھیں۔ عمران خان مدینہ ریاست کے داعی ہیں۔ وہ خود پر لگنے والے الزام کا جواب دینے کے لئے، طلب کرنے پر سر کے بل تھانے آکر وضاحت پیش کریں گے۔ وہ دن گئے جب وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر تھانے پر حملہ کرکے اپنے حامیوں کو چھڑا لیتے تھے۔ اس وقت ملک میں مدینہ ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ جو بفضل تعالیٰ عمران خان کی قیادت میں قائم کی جاچکی ہے۔

بدھ کے روز مولانا فضل الرحمان کی نیوز کوریج پر پابندی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ریاست کو تنقید کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ ’نکتہ چینی ہی کے ذریعے ریاست کے اختیار کی نگرانی ہو سکتی ہے۔ عدالتوں کے خلاف بھی متنازع بیان جاری ہوتے ہیں۔ عدالتیں کسی کو آزادی رائے سے کیوں روکیں؟ ملک میں اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ آخر کتنے لوگوں کو بات کرنے سے روکا جاسکتا ہے؟ ‘

آزادی کی یہ سہانی باتیں کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کو علم نہیں تھا کہ تین روز بعد نواز شریف کی طبیعت اس قدر بگڑ جائے گی کہ شہباز شریف کا وکیل لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کی مثال اور میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر فوری ضمانت کی درخواست دائر کرے گا اور چیف جسٹس کو ڈویژن بینچ کے ایک جج کی غیر موجودگی میں خود اس درخواست کی سماعت کرنا پڑے گی۔ ہفتہ کو اس درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے ججوں نے وفاقی یا صوبائی حکومت کو نواز شریف کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ پھر پانچ اینکرز کو طلب کر کے انصاف کی میزان میں عدم توازن کا کچھ ملبہ میڈیا پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ کئی گھنٹے کی سعی لاحاصل کے بعد ہائی کورٹ کو چار روز کی عبوری ضمانت منظور کرنا پڑی۔

جس ڈیل کی گونج پر جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں کو طلب کیا تھا، وہ بدستور ملک کی فضاؤں میں سیاسی ماحول کو آلودہکیے ہوئے ہے۔ نکتہ چینی کے احترام کے بارے میں دیے گئے لیکچر کی زندگی صرف تین مختصر دن پر محیط تھی۔ ہفتہ کو میڈیا کی خیال آرائیاں اس قدر ’تکلیف دہ‘ ہو چکی تھیں کہ جسٹس اطہر من اللہ کو یہ بھولنا پڑا کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، عدالت کس کس کی زبان پکڑے گی۔ ہوسکے تو فرصت کے لمحات میں جسٹس صاحب ان خصوصی اخباری اور ٹی وی رپورٹوں کا مطالعہ کر لیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ نواز شریف کتنے ارب ڈالر دے کر ملک سے باہر جا رہے ہیں یا یہ کہ نواز شریف نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس دوران نواز شریف خود لاہور کے سروسز اسپتال میں متعدد بیماریوں سے نبرد آزما اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

عرض کیا کہ یہ ملک حیرت کدہ ہے۔ یہاں بوالعجبیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ حیرتوں کے اسی سفر میں نواز شریف کی زندگی کے لئے دعائیں مانگتے ملک کے طول و عرض کے لوگ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ کیا کبھی ان کی دعا بھی سنی جائے گی۔ کبھی ان کی رائے کا احترام بھی ممکن ہوگا۔ ان کے پاس تو کوئی ایسا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی زور آور کو ’توہین آدمیت‘ کے الزام میں طلب کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali