مسخرے تماشوں میں ہی جچتے ہیں، تخت پر نہیں ‎


عجیب موسم ہے اور اس سے بھی منفرد سیاسی صورت۔ بیماریوں پر ٹھٹھا مذاق، موت پر جوا، پھر اس پر بحث۔ اس سنگ دلی کو دیکھ کر آدمی سوچتا ہے کہ اپنی حالت پر حیرت کیسی۔ ہم ایسے ہی ہیں یا ہمیں ایسا بنا دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے جب ماضی، تاریخی جھوٹوں سے اٹا پڑا ہو تو اعتبار نامی جذبہ کہاں سے آئے۔ جب ریاست اور شہری کے مابین عمرانی معاہدہ یا آئین اور قانون مسلسل شہری کے تحفظ میں ناکام رہیں تو پھر اعتبار کہاں سے آئے؟

معاہدہ، دو طرفہ ہوتا ہے۔ ریاست جب ٹیکس لے کر حکمرانی اور شہریت کے ضوابط بناتی ہے اور شہری کو اس کا پابند بناتی ہے تو دوسری طرف شہری کے حقوق وجود میں آتے ہیں۔ اس طرح یہ دو طرفہ معاہدہ اپنا احترام کرواتا ہے۔ شہری کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی آزادی، پیسہ ریاست کو دے گا اور اسے جواب میں ریاست سے تحفظ ملے گا، اس کے بچوں کو تعلیم ملے گی، علاج ملے گا، جب ایک فریق مسلسل اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتے گا اور دوسرا ڈنڈے کی وجہ سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر مجبور ہوگا تو پھر اعتبار، احترام کیسا؟

جو بچے گا وہ شہری کی مجبوری اور خوف ہو گا، نتیجہ یہ کہ آج سب جھوٹ ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اڑاتے لوگ آج نواز شریف کی بیماری کا مذاق بناتے ہیں۔ کوئی سوال سرے سے اٹھتا ہی نہیں کہ ایسی سازش یک طرفہ کس طرح ہو سکتی ہے؟ قیدی اکیلا سازش کرے گا؟ اگر یہ سازش ہے تو حکمران کی مرضی اور شراکت کے بغیر کس طرح ممکن ہے؟ کبھی نہ بکنے والا، کبھی نہ جھکنے والا صاف شفاف حکمران کی شراکت داری کے بنا یہ سازش کس طرح وجود میں آسکتی ہے؟

اور اگر موجودہ حکمران اس میں شامل ہے تو سوال اٹھتے ہیں کہ اس نے کتنے پیسے پکڑ کے سہولیات فراہم کی ہیں؟ اگر پیسہ ملا ہے تو خان کی اس سے بڑی سیاسی جیت کیا ہو سکتی ہے؟ پھر تو اسے یہ چائیے کہ وہ طوفان اٹھا دے کہ دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ ڈاکو سے پیسہ واپس لوں گا یہ دیکھو پیسہ واپس لے لیا۔ اب یہ صاف شفاف حکمران اور اس کے کارکنوں کے بیچ طے ہونا ہے کہ اگر ڈاکو سے پیسہ ملا تو وہ کہاں گیا؟ اگر نہیں ملا تو پھر اسے میڈیکل سہولیات کیوں میسر ہیں؟

اگر یہ سب ہی ہونا تھا تو پھر تبدیلی کہاں ہے؟ فرض کریں نواز شریف کی طبیعت ٹھیک ہے تو پھر ڈی جی نیب لاہور کے بیٹے نے ایک خبر کے مطابق ڈاکو نواز شریف کو خون کا عطیہ کس لئے دیا؟ اس تھیوری کے مطابق، تمام سرکاری ڈاکٹر، جیل انتظامیہ، اور سیکیورٹی کے ادارے اس سازش میں شریک ہیں، کس کو کتنا حصہ ملا؟ اگر ملا تو حصہ لینے والے کون ہوئے؟

جس معاشرے میں ملالہ یوسف زئی پر حملے کو ڈرامہ مان لیا جائے اور پھر دھکیل کر سازشی ایجنٹ بنا دیا جائے وہاں کچھ بھی بکتا ہے۔ سو بک رہا ہے۔

دوسری جانب میں آپ کی توجہ جے یو آئی کے سینیٹر حمد اللہ کی شہریت کی منسوخی کی جانب دلاؤں گا۔ یہ قدم کس نے اٹھایا کبھی پتہ نہیں چلے گا البتہ اس حکم کے اثرات پختون قومیت اور سیاسی جذبات پر کس طرح پڑے اور اس کا حوالہ کب تک ہمارے لئے وبال جان بنا رہے گا اس کا اندازہ لگانا ہو تو کسی بھی پختون صحافی یا سیاست دان سے پوچھ لیں۔ اب تو یقین سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس واقعے کو فراموش کیا جا سکے گا یا نہیں؟

پختونوں کی اکثریت پرامن، پاکستانی ہے۔ وہ پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں اور اپنی صفوں میں ان انتہا پسندوں کا مقابلہ کرتے ہیں جو سرے سے پاکستان کے ہی مخالف ہیں۔ اس ایک عمل نے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور سینیٹر حمد اللہ کے شدید سیاسی مخالف بھی مجبور ہو کر اس سلوک پر احتجاج کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہیں۔ یعنی جو لوگ مولانا اور ان کے مذہبی سیاسی نظریات کے خلاف رہے انہیں بھی مولانا کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنا، کس طرح کی سیاسی عقل کا نمونہ ہے؟

شہریت کی منسوخی آخری قدم ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ طلاق ہوتی ہے۔ طلاق دینے کے بعد سابق بیوی کس کے نکاح میں چلی جائے یہ سابق شوہر کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوتا مثلآ ریحام خان۔ ہم کیوں اپنے لوگوں کو دشمنوں کے کیمپ میں زبردستی دھکیل رہے ہیں۔ یہ کہاں کی فہم و فراست ہے۔ اس عمل پر، اوریا مقبول جان تک چیخ اٹھے اور ویڈیو بیان جاری کر دیا کہ اس عمل سے کم ازکم خود کو لاتعلق بنا دیں۔

کشمیر پر قبضہ ہو چکا، کبھی نہ جھکنے والا بہادر وزیر اعظم بار بار ہمیں بتاتا ہے کہ خبردار لائین آف کنٹرول پار کرنے والا، جہاد کرنے والا در اصل کشمیر اور پاکستان کا دشمن ہے۔ تو پھر دوست کون ہے؟ وینا ملک اور حریم شاہ؟ انہی کو بھارت بھیج دیں کہ شاید ان کی ثالثی اور اپیل پر بھارت بھی مان جائے۔

کسی امتحان میں تو پورا اتریں۔ ایک طرف کشمیر کی جھڑپیں دوسری جانب کرتار پور راہداری والی پالیسی اس وقت چل جاتی جب مغربی سرحد پر امن ہوتا۔ اس وقت کرتار پور راہداری کا کھلنا اور اپنے لوگوں کو افغان بنا دینا کیا گل کھلائے گا۔ درست پالیسی کا درست ہونا ایک طرف مگر بھونڈا طریقہ اور غلط وقت پر اصرار، درست پالیسی کو بھی تباہ کن بنا دیتا ہے۔ قومی مسائل حل کرنے کے لئے قومی ذہانت درکار ہوتی ہے اس کے لئے سیاسی مخالفت رکھنے والوں کو بھی کم ازکم ایک حد تک، ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔ دوسرے کو جانی دشمن بنا کر گالیاں دے کر کونسا قومیمسئلہ حل کریں گے۔

آصف زرداری کی طبیعت، نواز شریف سے شاید زیادہ خراب ہے، اس کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے، سوال یہاں بھی وہی ہیں کہ اگر زرداری صاحب بیمار نہیں تو یہاں بھی جیل حکام، سرکاری ڈاکٹر اور ادارے سب کے سب اس سازش میں شریک ہوں گے، اس کی کیا قیمت کس کس نے وصول کی اور کس کس کو حصہ دیا؟ اگر صاف شفاف حکمران نے رشوت وصول نہیں کی تو پھر انہیں ہسپتال منتقل کیوں کیا گیا؟

عمران خان نے نفرت کی جس سیاست کو عروج پر پہنچا دیا ہے وہ اب ان کے گلے پڑے گی۔ ان کا ووٹر انتقام چاہتا ہے، بتایا گیا لوٹا ہوا پیسہ واپس سرکاری خزانے میں جمع دیکھنا چاہتا ہے، اور یہ سب نہیں ملتا تو پھر جنازے چاہتا ہے۔

خان صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ انہیں اقتدار کس طرح ملا ہے، اب وہ اپنی ہی لگائی آگ میں پھنس چکے ہیں۔ کوئی بڑا سیاسی حادثہ ان کی حکومت کی چولیں ہلا دے گا اور جواب میں اپنے کارکنوں کو دکھانے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ ہم سب نے ایک دن دنیا سے جانا ہے، نواز شریف نے بھی، آصف زردای نے بھی، فرض کریں یہ دونوں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو پھر خان صاحب کا ووٹر، مریم نواز اور بلاول بھٹو کا خون مانگے گا یا پھر لوٹا ہوا پیسہ۔ خان صاحب کتنے جنازوں کے پیچھے کب تک چھپیں گے؟

اس وقت معاملہ یہ ہے کہ حمد اللہ پاکستانی نہیں رہے، پختون قومیت پسند ابھر رہیے ہیں۔ سندھ میں ایک اور بڑا سیاسی جنازہ کیا آگ لگائے گا، کوئی نہیں جانتا۔ پنجاب میں سیاسی اکثریت رکھنے والی جماعت اب پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے کس طرح کے جذبات رکھتی ہے اس کے لئے نفسیاتی ماہر کی ضرورت نہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ نفرت اور حقارت کی سیاست جو جھوٹ اور انتقام پر کھڑی ہو، جس کے پاس کسی مسئلے کا حل موجود نہ ہو، ہنر نہ ہو، ایک دن اسی نفرت اور انتقام کا نشانہ بنتی ہے۔

سانحہ ساہیوال کے تمام، دوبارہ لکھتا ہوں، تمام ملزم بری ہو چکے ہیں۔ ایک تحریک ہوتی تھی جس کا نام ہی انصاف تھا، اب کہاں ہے؟ کون تھا جو گلا پھاڑ کے ریاست مدینہ کے انصاف کی دہائی دیتا تھا؟ آج کمزور بچوں کے والدین کے قاتل رہا اور بقول خان، ڈاکو ہسپتال میں؟ کمال کی بات یہ ہے کہ آج پھر حضور نے تقریر کی کہ ہمارے نظام میں طاقتور کے لئے قانون مختلف اور غریب کے لئے اور ہے۔ سوال تم سے ہے تم کیا کر رہے ہو؟ اگر کچھ نہیں تو اتر جاؤ، یہ کرسی ہے تمہاری جاگیر نہیں کہ اتر نہ سکو۔ پھر یہ دعویٰ کہ مجھے کسی چیز کا لالچ نہیں؟ ایسی ڈھٹائی کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے اہل سیاست قابل فخر تو کبھی نہیں تھے مگر اس نئی گراوٹ تک پہنچایا اس شخص نے جو مسیحائی کا دعویٰ لے کر اترا تھا۔

اس تمام بحث میں نوکری کہاں ہے، علاج کہاں ہے، کاروبار کہاں ہے، تعلیم کہاں ہے، مقامی حکومتیں کہاں گئیں، تحفظ کہاں ہے، عوام کا مستقبل کہاں ہے؟ اور کچھ نہیں تو عرض ہے کہ خان صاحب، اپنے پیروں سے جو وظیفہ تسبیح کرتے ہیں وہ وظیفہ ہی قوم کو بتا دیں کہ ہم بھی وہی تسبیح کر لیں، وظیفہ پڑھ لیں جس سے سنگ دل محبوب، نوکری، کاروبار میں برکت سمیت سب کچھ غیب سے عطا ہو جائیں۔

آخر میں ایک عرض جناب حسین نواز شریف اور حسن نواز شریف سے کہ ذاتی تعلق تو مدت سے ختم ہوا، اس لئے یہاں ہی لکھ دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ صدق دل سے اپنی والد اور بہن کا بھلا چاہتے ہیں اور کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں۔ وہ سب سے بڑی مدد جو اس وقت وہ کر سکتے ہیں وہ ان کا خاموش رہنا ہے اور خاموشی سے رابطوں کے ذریعے مدد ہے لیکن اگر شیر بننے کا شوق ہے، غیرت نامی جذبہ کچھ زیادہ ہی تنگ کرتا ہے تو انجام کی پرواہکیے بغیر واپس آئیں۔ اس وقت ان کی واپسی پر زیادہ سختی کا خطرہ ہے بھی نہیں، ٹوئیٹر پر جہاد یا احتجاج کرنا، خود لندن میں بھاگے رہ کر دوسروں سے جان داؤ پر لگانے کی اپیلیں کرنے سے نہ صرف ان کا مذاق بنتا ہے بلکہ نواز شریف اور مریم نواز کا موقف بھی کمزور ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).