مٹی کے چراغ


راشد ظہور

\"rashid-zahoor\"

امی اور پاپا جی کو اللہ نے سات اولادیں دی تھیں۔ وہ دونوں خود اور ان کے چار بچے اب یہاں رہتے ہیں۔ سب سے پہلے جب عارف بھائی یہاں آئے تھے تو میں دس سال کا تھا۔ \”تم جلدی سے انگلش بولنا سیکھو، پھر ہم انگلش میں بات کیا کریں گے۔\” وہ مجھ سے کہا کرتے۔ گورنمنٹ سکول کی چوتھی جماعت میں پڑھنے والے بچے کو، جو اگرچہ گھر میں انگریزی کا پہلا قاعدہ پڑھ چکا تھا اور جس کے باقی ہم جماعتوں کو ابھی اگلے سال پانچویں جماعت میں اے بی سی سیکھنا تھی، اس بات پر بے حد فخر محسوس ہوا۔ بونی-ایم کا ’’ون وے ٹکٹ‘‘ میں نے ان کی ’’ٹی ڈی کے‘‘ کی ایک کیسٹ ہی میں سنا تھا۔ انہوں نے مجھے اس کا ترجمہ کر کے بتایا تھا۔ ان کی کیسٹس میں سنے گئے نیرہ نور، مالا، عالمگیر اور رفیع کے گانے میری یادداشت میں ابھی تک تازہ ہیں۔ \”جلے تو جلاؤ گوری\” اور \”غم دل کو ان آنکھوں سے\” تو ذہن میں کہیں چپک کر رہ گئے تھے۔
پھر ایک دن وہ خبر آئی، جس نے آنے والے دنوں میں بہت کچھ بدل دینا تھا۔۔۔ نشتر کالج کے دوسرے سال میں پڑھنے والے عارف بھائی کا نشتر ہسپتال میں ہی اپنڈکس کے آپریشن کے بعد انتقال ہو گیا۔ شہر کے تمام بازار بند ہو گئے تھے یہ اعلان سنتے ہی۔۔۔ کالج سے ڈاکٹروں اور طلباء کی کئی بسیں آئی جنازے میں۔۔۔ گھر کے قریب واقع قبرستان میں پیر صاحب کا ایک مزار تھا؛ اسی مزار کی داہنی جانب والی دیوار کے ساتھ ان کو دفن کیا گیا۔ تب اس قبرستان کی کوئی چاردیواری نہیں تھی، عارف کی قبر کے گرد ڈھائی تین فٹ اونچی دیوار بنوا دی گئی تھی اور ایک جانب تھوڑا سا راستہ چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس کے بعد ایک سال میں دو مرتبہ تو ہمارا چکر ضرور لگتا تھا، دونوں عیدوں پر۔ عید کی نماز پر جاتے ہوئے پاپاجی گھر میں لگی ہوئی بوگن ویلیا کی چند شاخیں بڑے اہتمام سے توڑتے اور گاڑی میں رکھ لیتے تھے۔ عید گاہ سے واپسی پر سیدھے وہاں جاتے، قبرستان سے ملحقہ ایک مکان میں رہنے والے شخص نے قبر پر تازہ چھڑکاؤ کیا ہوتا اور بیری کی چند شاخیں وہاں سجی ہوئی ملتیں۔ بوگن ویلیا کی گلابی پھولوں سے لدی شاخوں کو بھی وہیں پھیلا کر فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے جاتے۔
بہت سالوں بعد جب ہماری بڑی بہن، جنہیں سب گھر والے پپو کہتے تھے، بھی یہاں آگئیں تو ہمیں بوگن ویلیا کی شاخوں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔ پپو نے تقریبا پینتیس برس کی عمر پائی۔ عارفہ اور طاری کی طرح وہ بھی جسمانی طور پر مکمل معذور تھیں۔ امی نے عمر بھر اپنے تینوں اپاہج بچوں کی جی جان سے خدمت کی۔ پپو کے بعد ان کے کمرے میں دو چارپاییاں رہ گئیں۔ یہاں عارفہ اور طاری نے مزید چند سال گزارے۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی میں طاری کی باتیں سمجھنے لگ گیا تھا۔ وہ اپنی ٹیڑھی انگلیوں سے ہوا میں حروف تہجی بناتا، میں وہ حرف بول کر اس سے تصدیق کرواتا، اس طرح ایک لفظ بن جاتا پھر یوں ایک مکمل جملہ۔۔۔۔
جن دنوں میں گھر میں ہوتا، اسے پانی پلانے اور کھانا کھلانے کی ذمہ داری بھی میری ہوتی۔ طاری اپنا سارا وقت پڑھنے میں گزارتا تھا۔ تفسیر اور حدیث سے لے کر سیرت صحابہ اور بے شمار اسلامی موضوعات پر مشتمل سینکڑوں کتابیں آہستہ آہستہ اس کی لائبریری کا حصہ بنتی گئیں۔ اس کے ہاتھ بیماری کی وجہ سے بتدریج مڑتے چلے گئے تھے، لیکن اس سے پہلے تک، جب تک وہ سہارے سے بیٹھ پاتا تھا، وہ لکھتا بھی تھا۔ اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی بیسیوں ڈائریاں اس کی الماری میں موجود تھیں۔
دوسرے بستر پر عارفہ ہوتی تھی۔۔۔۔ قرآن پڑھنے کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا مشغلہ نہیں تھا۔ موٹی لکھائی والے مجلد تیس پارے اس کے سرہانے شیلف پر موجود ہوتے۔ وہ کم از کم ایک پارہ روزانہ تلاوت کرتی۔ اور اکثر ڈائری کا ایک صفحہ بھی لکھتی، باقی تمام وقت وہ دونوں چپ چاپ برابر لیٹے رہتے۔ وہ دونوں اب بھی برابر لیٹے ہوئے ہیں، عارف کے قدموں کی جانب ان کی قبریں ہیں۔
چار بچوں کو رخصت کرنے پر امی اور پاپاجی، ایک طویل مشقت کے بعد، اپنی ذمہ داریوں سے قدرے فارغ ہو گئے تھے۔ پاپاجی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اور ساری عمر انہوں نے بڑا بن کر دکھایا بھی۔ بڑے بیٹے عارف کی وفات کے بعد اس کی یاد میں ایک مسجد بنوائی۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز انہوں نے ایک ویران قصبے میں ایک چھوٹے سے کلینک سے کیا تھا، زندگی کے آخری دو چار سالوں کے سوا ساری زندگی لوگوں کی خدمت میں گزار دی۔ لوگ بتاتے ہیں، بہت عرصے بعد، اپنے پوتے ابراہیم کی پیدائش پر، انہیں بہت خوش دیکھا گیا تھا، دوسری مرتبہ جب ملتان میں ہمارا گھر بنا، تب۔۔۔۔
نئے گھر میں آنے والے مہمانوں کو لانگ روم میں بنا ہوا آتش دان اور جھروکا خاص اہتمام سے دکھاتے۔ وفات سے چند دن پہلے سب لوگوں کی پہچان ختم ہو گئی تھی، سوائے ابراہیم کے۔۔۔۔
اپنے چار بجوں کے ساتھ جا بسنے والے پانچویں فرد پاپاجی تھے۔ ان کو یہاں آباد ہونے دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ امی بھی ان کے سرہانے جا سوئیں۔ ہمارے گھر میں ایک بیر کا درخت تھا، عین ویسا ہی درخت اب ان کے سرہانے ہے۔
پیر صاحب کے مزار کے تین اطراف، بے شمار ڈھیریوں میں، چھ ڈھیریاں میری ہیں۔ عارفہ کی قبر مزار کے داخلی دروازے کی داہنی جانب ہے۔ اس کی پائنتی کی طرف پکی اینٹوں کی ایک شیلف بنی ہے جس پر مٹی کے بہت سے چراغ دھرے ہیں، جو ہر جمعرات کو روشن ہوتے ہیں۔ ہر ہفتے، جیسے اس کے تلاوت شدہ سپاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا کرتا تھا، چراغوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments