فضائی آلودگی کے لحاظ سے لاہور دنیا میں پہلےنمبر پر آ گیا


فضائی آلودگی کے لحاظ سے مختلف ممالک کی فہرست سامنے آگئی ہے اور لاہور 170 سے 250 ایئر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ دُنیا کے آلودہ شہروں کی فہرست میں مسلسل پہلے نمبر پر جبکہ 206 ایئرکوالٹی انڈکس کیساتھ کراچی دوسرے نمبر پر ہے، ہوا کے معیار کو جانچنے والی عالمی ویب سائٹ “ایئر ویژول “پر جمعرات اور جمعہ سے لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس مسلسل آلودگی ظاہر کر رہا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق لاہور میں امریکی سفارت خانے میں نصب ہوا کے معیار کو جانچنے کا آلہ بھی 223 اے کیو آئی ظاہر کر رہا ہے۔ اس کے مطابق، ہوا کا یہ معیار شدید مضر صحت ہے تاہم، پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کا محکمہ اِسے خطرے کی گھنٹی تسلیم نہیں کرتا۔رپورٹ کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے تجاوز کرے تو ہنگامی صورتِ حال درپیش ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ کے مطابق ان کے بقول، ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے مطابق جمعے کو پنجاب کا اے کیو آئی 95 رہا لیکن ایئر ویژول کے مطابق لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 250 تک گیا۔ علیم بٹ کہتے ہیں کہ امریکہ میں یہ آلات جدید تحقیق کے بعد بنائے گئے ہیں۔ لہذٰا، ہمیں بھی انہیں اپنانا چاہیے۔لاہور اور کراچی دنیا کے آلودہ ترین ممالک شہروں کی فہرست میں شامل ہیں، ویتنام کا شہر ہنوئی تیسرے اور بھارت کا دارلحکومت نئی دہلی چوتھے نمبر پر رہا۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق، ہوا کے معیار کی مانیٹرنگ سے زیادہ فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے حل نکالنے چاہئیں۔ ہوائی آلودگی سے فکرمند ہو کر کراچی کے عابد عُمر نے ‘پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹیو’ کے نام سے ایسا ادارہ شروع کیا ہے جس میں اُنہوں نے پورے ملک سے لوگوں کو اکٹھا کرکے یہ مہم چلائی کہ تمام لوگ اپنے طور پر فضائی آلودگی ختم کریں۔ مہم کے تحت مختلف شہروں سے رضاکاروں نے ہوا میں آلودگی کی نگرانی شروع کی۔

محکمہ تحفظ ماحولیات کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاہور میں واہگہ ٹاون، ٹاون شپ، جیل روڈ پر مانیٹرنگ آلہ جات نصب ہیں۔ اُن کے مطابق، واہگہ ٹاون کا ایئر انڈیکس فیکٹری ایریا ہونے کے باعث زیادہ رہتا ہے۔ لیکن رہائشی علاقوں میں یہ 180 سے تجاوز نہیں کرتا۔

یو ایس ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان کا شہر لاہور جمعرات اور جمعہ کو دنیا کے آلودہ شہروں میں پہلے درجے پر رہا لیکن ہوا کے اس آلودہ معیار نے شہر میں کسی قسم کی ماحولیاتی ایمرجنسی کا بگل نہیں بجایا گیا۔ لاہور میں ماحولیات پر کام کرنے والے ایک نجی ادارے ایشین اینوائرمینٹل سروسز کے ڈائریکٹر علیم بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2017 میں پہلی بار اسموگ پالیسی بنائی گئی، جس کے بعد حکام نے ایئر کوالٹی انڈیکس کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

ان کے مطابق دنیا بھر میں یونائیٹڈ اسٹیٹس اے کیو آئی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن، اسموگ پالیسی میں پاکستان نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے درجے اپنی مرضی سے طے کیے، جسے ماحولیاتی تحفظ کمیٹی سے منظور کرا لیا گیا۔ یہ امریکہ کے بنائے عالمی اے کیو آئی سے کسی صورت مطابقت نہیں رکھتا۔

علیم بٹ نے اس کی مثال ایسے دی کہ یو ایس اے کیو آئی کہتا ہے کہ صفر سے پچاس ڈگری کی سطح بہتر ہے جب کہ پاکستان اے کیو آئی صفر سے ایک سو کو بہتر مانتا ہے، جس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہوا مختلف گیسوں کے امتزاج سے بنی ہے جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے بہت سے دیگر چھوٹے مادے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن، جب کہیں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے، بسیں یا ذرائع آمد و رفت دھواں پھیلانے لگیں، فیکٹریوں اور بھٹوں سے دھوئیں کا اخراج ہو، فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہوں تو ایسی صورت میں ہوا میں موجود چھوٹے مادے بڑھ جاتے ہیں۔

اور ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں، انہی مادوں کے بڑھتے تناسب کا جائزہ لے کر ہی ہوا کے معیار کو جانچا جاتا ہے۔یہ گیسیں جس قدر بڑھتی جائیں گی اتنی ہی ہوا آلودہ ہوتی جائے گی۔ ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر میں ایک ماحولیاتی پراجیکٹ کی کوارڈینیٹر فرح راشد ایئر کوالٹی انڈیکس کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ فضائی آلودگی کا جائزہ ایئر کوالٹی انڈیکس سے لیا جاتا ہے تاہم پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے ادارے اسے خطرے کی بات نہیں سمجھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).