غیرت میں قتل ہی کیوں اور پھر بیٹی ہی کیوں؟


\"armaghan2\"کل پروفیسر محمد عاصم حفیظ صاحب کے بلاگ پر نظر پڑی۔ عاصم حفیظ صاحب حکومت کو کوسنے دینے سے اپنا مضمون شروع کرتے ہیں اور پہلے ہی پیراگراف میں ایسے کھل کے سامنے آئے ہیں جیسے بلی تھیلے سے باہر آتی ہے۔

’’یعنی اب اگر کوئی والد، بھائی یا کوئی اور رشتہ دار کسی بھی صورت میں اپنی غیرت کا مظاہرہ کرے گا تو اسے معافی نہیں ملے گی۔ اگر کبھی بھی آپ کو لگے کہ کوئی ایسی حرکت ہو رہی ہے کہ جس سے آپ کی یا آپ کے خاندان کی عزت کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو فوری طور پر آنکھیں اور کان بند کر کے وہاں سے نکل جائیں کیونکہ اب پاکستان میں اس قسم کی غیرت کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ سرکار کا حکم یہی ہے کہ اپنی اپنی غیرت سنبھال کر رکھیں۔‘‘

خدا کی پناہ! آپ کی غیرت کی تان قتل پر ہی آکر کیوں ٹوٹتی ہے؟ اگر بھائی یا والد یا کوئی اور رشتہ دار غیرت میں آ کر قتل کرے گا تو سزا کیوں نہ پائے؟ آپ اس قاتل کی معافی کیوں چاہتے ہیں؟ پھر آپ لوگوں کی یہ غیرت بیٹی کی دفعہ ہی کیوں جاگتی ہے؟ یہ جن والد صاحب، جن بھائی صاحب اور جن رشتہ داروں کی غیرت کا نوحہ آپ پڑھ رہے ہیں ان کی اپنی کتنی حرکات پر ان کے گھر کی خواتین کی غیرت کے جاگنے پر آپ نے مضمون لکھے؟ جی، سرکار کا یہی حکم ہے کہ اپنی غیرت سنبھال کر رکھیں، غیرت نہ ہو گئی دولت ہوگئی جو لٹاتے پھرتے ہیں۔ آپ کو کس نے کہا ہے کہ آپ کی غیرت جاگنے کا مطلب قتل کرنا ہی ہے۔ پھر یہ کون متعین کرے گا کہ آپ کی غیرت جاگنے کا واقع موقع اور محل کی مناسبت سے تھا؟ خود ہی مدعی خود ہی منصف والا معاملہ ہے آپ کے ساتھ، اللہ رحم ہی فرمائے۔

اگر بات بات پر گرفت کروں گا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی، لہذا مختصراً ہی عرض ہے۔ سوچ بدلنے کی بھی خوب کہی مگر جیسے مضمون آپ نے لکھا ہے اس سے خاک بدلنی ہے سوچ۔ اس سے تو قاتلوں کی ہی حوصلہ افزائی ہو گی۔ سوچ ضرور بدلیں مگر قانون کو کیوں نہ طاقتور کریں؟ جب ہمیں معلوم ہے کہ قاتل کو وارثین معاف کر دیتے ہیں تو قانون بدلنا سوچ بدلنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پھر آپ نے فلسفے کی روح کو تڑپا دینے والی بات کی ہے کہ ایسی قانون سازی مقدس رشتوں کے درمیان غلط فہمیوں اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں والی بات ہے۔ قتل روا رکھنے سے تو مقدس رشتوں کے درمیان غلط فہمی اور اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچے گی مگر ایسی قانون سازی جس سے قاتل مجرم سزا پائے اس سے مقدس رشتوں کے درمیان غلط فہمی اور اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ ذرا اس ٹھیس کی تفصیل بھی سمجھا دیتے تاکہ ہم اس پر بھی نظر کرم کر لیتے، ابھی تو آپ کا فلسفہ تشنہ ثبوت ہے۔

علماء کرام سے تو آپ نہ ہی پوچھیں، خوار ہی ہوں گے۔ ذرا خود بھی کچھ تحقیق کا حق ادا کر لیں۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ صرف وہی باپ اور بھائی قاتل اور ظالم کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جو ایسی گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے۔ معاشرے میں پھیلتی بے راہ روی کیا صرف قاتل کو معافی دینے کے حق سے رکے گی؟ حیرت ہے کہ اخلاقی اقدار کو مضبوط کرنے کی طرف جناب نے کوئی توجہ نہیں کی، مگر معافی کا حق چھن جانے پر واویلا مچا رہے ہیں؟ کیا کبھی معاشرے کی برائی قاتل کو معافی کا حق دینے سے بھی حل ہوئیں ہیں؟

عجیب لایعنی باتوں کا ایک طورمار ہے۔ سوچ رہا ہوں کس کا ذکر کروں اور کس کا چھوڑ دوں۔ میرا خیال ہے اصولی طور پر تو جواب واضح ہو گیا ہے۔ آپ کے خیالات پر جوابات کی بجائے سوالات زیادہ اٹھتے تھے۔ وہ آپ کے سامنے رکھ دئے ہیں۔ بات اگر پھیلی تو جواب بھی پھیلا دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments