آزادی مارچ یا طویل غلامی کی طرف ایک قدم


گزشتہ برس حکومت سنبھالنے کے بعد سے عمران خان نے بطور قائد ایوان اور وزیر اعظم، اپوزیشن کے ساتھ توہین آمیز اور عدم تعاون کا رویہ اختیار کیا ہے۔ وہ مسلسل اپوزیشن لیڈروں کی کردار کشی کو ہی اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ اس رویہ کا مظاہرہ نواز شریف کی علالت، عدالت میں ان کی ضمانت اور دو روز پہلے ننکانہ صاحب میں عمران خان کی گفتگو سے بھی کیاجاسکتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ مولانا فضل الرحمان کئی ماہ سے احتجاج کی بات کررہے ہیں اور ایک ماہ سے اس کی باقاعدہ تیاریاں بھی شروع کردی گئی تھیں لیکن حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی سیاسی اقدام کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

عمران خان بدستور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ فوج بہر صورت ان کی پشت پر کھڑی رہے گی۔ اس گمان یا یقین کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں خاص طور سے ملک کی قیادت کے لئے چنا گیا تھا۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوامی دباؤ کی سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ اگر عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں تو انہیں اقتدار سے محروم کرنے میں بھی فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔ طاقت ور حلقوں نے قومی مفاد کے نام پر نہ ماضی میں کبھی عوام کے ووٹوں کی پرواہ کی ہے اور نہ ہی اب ان سے اس قسم کی توقع کی جاسکتی ہے۔ عمران خان اگر فوج کی اعانت کی بجائے عوام کی حمایت پر بھروسہ کرتے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے تو شاید وہ موجودہ مشکل صورت حال سے بچ سکتے تھے۔

کم تعداد میں لوگ جمع ہونے کی صورت میں مولانا فضل الرحمان کے پاس چند گرما گرم تقریریں کرنے کے بعد اپنے حامیوں کو گھر بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اس صورت حال کے بارے میں ہی مبصرین کا خیال ہے کہ اس احتجاج کے ذریعے مولانا فضل الرحمان نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ تاہم مارچ اور اس کے شرکا کے بارے میں اب تک موصول ہونے والی خبروں سے یہ تاثر قائم نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والی رات ان کے سیاسی عروج کی آخری گھڑیاں ہوں گی۔ وہ سیاست کے گرم و سرد چشیدہ ہیں۔ ان کی جماعت منظم ہے اور انہیں ایک خاص حلقہ میں وسیع پذیرائی بھی حاصل ہے۔ اسی لئے اندیشہ ہے کہ بڑا ہجوم اکٹھا کرنے کے بعد ان کی امیدیں اور مطالبے بھی بڑھ جائیں گے۔ یہ صورت حال عمران خان اور حکومت ہی کے لئے نہیں بلکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کے لئے بھی سیاسی طور سے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف نے اس احتجاج کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کرنے کے باوجود ابھی تک کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔

تاہم آزادی مارچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ سیاست میں فوج کا کردار بڑھ جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان بھی انہیں حلقوں کا ہاتھ پکڑ کر سیاست کرتے رہے ہیں جن کی سرپرستی پر عمران خان کو ناز ہے۔ اسی لئے یہ بدگمانیاں بھی سیاسی فضا میں موجود ہیں کہ کیا یہ احتجاج محض سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں کمزور کروانے کا ہی کھیل ہے؟ اس لئے کل کے بعد کوئی بھی صورت رونما ہو۔ احتجاج کے پر امن منتشر ہوجائے یا اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کردیا جائے، سیاسی بساط پر کٹھ پتلیوں کی جگہ بنانے اور بدلنے والے ہاتھ ہی مضبوط ہوں گے۔ امن و امان کا کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں براہ راست فوجی مداخلت کا خطرہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

راولپنڈی جاتے ہوئے گوجرانوالہ میں ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’اب قوم عمران خان کو مزید مہلت نہیں دے گی۔ عمران خان نے ملک کی معیشت تباہ کر دی اور جب معیشت تباہ ہو جائے تو ملک اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔ اب عوام کے ووٹ کو عزت دینا ہوگی۔ اس اصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو مولانا کو عوام نے یہ احتجاج منظم کرنے کے لئے منتخب کیا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کا استعفی ان قوتوں کی مرضی و منشا کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے جن سے ووٹ کی عزت کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔

مولانا ایک منتخب وزیر اعظم کے استعفی کے لئے انہی قوتوں کی حمایت چاہتے ہیں۔ یہ طریقہ ووٹ کو عزت دینے کی بجائے، ملک میں غلامی کی طویل رات کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali